Pages

Subscribe:

Friday, March 30, 2012

خاموشی محوِ گفتگو ہے



خاموشی محوِ گفتگو ہے۔۔





کبھی کبھی ہمارے ارد گرد خاموشی اس قدر بڑھ جاتی ہے کہ پھر وہ ہم سے باتیں کرنے لگتی ہے۔۔ عجیب بات ہے نا، خاموشی اور بات چیت تو دو بر خلاف پہلوں ہیں، پھر یہ ایک کیسے ہو جاتی ہیں؟ خاموشی محوِ گفتگو کیسے ہو جاتی ہے۔۔

خاموشی میں انسان کا باطن اُس کے روبرو آ بیٹھتا ہے۔ پھر وہ ہمیں ہمارا اصل دکھاتا ہے، ہم کیا ہیں وہ بتاتا ہے، ہم اس سے بڑھ کر کیا ہو سکتے ہیں، اس کی امید جگاتا ہے۔۔ لیکن کبھی کبھی وہ آئینہ کی طرح ہمیں ہماری غلطیوں اور کوتاہیوں کی کریہہ صورت دکھا کر ڈراتا بھی ہے۔۔ یہی وہ مقام ہوتا ہے جب بہت سے لوگ اپنی حقیقت کا سامنا کرنے کی بجائے اس سے خوفزدہ ہو کر بھاگ نکلتے ہیں۔۔ پھر انہیں فرار کی تلاش ہوتی ہے جو انہیں خود سے بیگانہ کر دے۔ اس کے لیے وہ شور شرابے والی جگہوں کا رُخ کرتے ہوئے ایک ایسے ماحول کا حصہ بننا پسند کرتے ہیں جہاں کوئی خاموشی اُن کا اُن کے باطن سے دوبارہ کبھی متعارف نہ کروائے۔۔

خاموش لوگ خاموش پانیوں کی طرح گہرے ہوتے ہیں، جس میں اُترنا اور انہیں دریافت کرنا ایک کٹھن مرحلہ ہوتا ہے۔ وہ آسانی سے دوسروں پر آشکار نہیں ہوتے بلکہ اپنی ذات کو کسی راز کی طرح سنبھالے رکھتے ہیں۔۔ ایسے لوگوں کو دریافت کرنا گوہرِ نایاب ڈھونڈ لانے کے مترادف ہوتا ہے لیکن اس مہم میں نہ جانے کتنے لوگ اپنی جان سے ہاتھ بھی دھو بیٹھتے ہیں۔۔۔

شور دریا سے یہ کہہ رہا ہے سمندر کا سکوت
جس میں جتنا ظرف ہے اتنا ہی وہ خاموش ہے

لیکن کہتے ہیں نا کہ جب کوئی چیز حد سے بڑھ جائے تو وہ نقصان ہی دیتی ہے۔۔ خاموشی کے جہاں اتنے فوائد اور اہمیت ہے وہیں اگر یہ حد سے بڑھنے لگ جائے تو اس سے لگنے والی کاٹ بڑی گہری ہوتی ہے۔۔۔

خاموشی اگر رشتوں میں در آئے تو سرد مہری بن جاتی ہے۔
لوگوں میں حائل ہو جائے تو غلط فہمیاں پیدا کر دیتی ہے۔
ضرورت کے وقت بھی ترک نہ کی جائے تو کمزوری اور کم علمی بن جاتی ہے۔
حق بات کہنے کے لیے بھی نہ ٹُوٹے تو ایمان کے سب سے نچلے درجے پر گِرا دیتی ہے۔

خاموشی اس وسیع و عریض کائنات کا ایک خوبصورت گوہر ہے۔۔ایک ایسا گوہر جس کو اگر نگل لیا جائے تو اپنی جان سے ہاتھ دھونا پڑتے ہیں لیکن اگر درست استعمال کیا جائے تو آپ کا ظاہر اور باطن دونوں اس کے حُسن سے آراستہ ہو جاتے ہیں۔۔

*****
مکمل تحریر اور تبصرے >>

انتظار




انتظار



دیکھ جتنا تو مجھے انتظار کرواتی ہے نا۔ کبھی میں بھی کرواؤں گا۔ پھر تجھے پتہ چلے کہ جس کی دید کو آپ کی آنکھیں ہر وقت پیاسی ہوں اُسی کا گھنٹوں انتظار کرنا کیسا لگتا ہے۔"
"اچھا۔ ۔ ۔تُو؟ تو مجھے انتظار کروائے گا؟ یہ تو ہو ہی نہیں سکتا۔" اُس کو جیسے یقین تھا کہ وہ اُس کو کبھی انتظار کروا ہی نہیں سکتا۔
"کیوں میں کیوں نہیں کروا سکتا انتظار؟" اُس نے ناراضگی سے پوچھا۔
"وہ اس لیے کہ تُو تو خود مجھے دیکھے بنا دو پل نہیں گُزار سکتا۔ انتظار کیسے کرائے گا" وہ اترائی۔
"میری اس کمزوری کا فائدہ اُٹھاتی ہے تو ہمیشہ ہی۔" وہ خفا ہوا۔
"میں کہاں فائدہ اُٹھاتی ہوں۔ دیکھ نا گھر پر کتنا سارا کام ہوتا ہے۔ بے بے کے ساتھ رسوئی کا کام۔ بابے کے ساتھ مل کر جانوروں کو پٹھے اور چارا ڈالنا۔ گھر کی صفائی کرنا اور پھر تیرے لیے کھانا بنا کر اتنی شِکر دوپہر یہاں کھیتوں میں آنا۔ یہ سب کیا میں جان کر تُجھے انتظار کروانے کو کرتی ہوں؟" اُس کے پاس بھی سو بہانے تھے۔
"میں کچھ نہیں جانتا۔ کل سے اگر تُو پورے بارہ بجے یہاں نہ ہوئی تو یاد رکھ اُس دن میں ساری دیہاڑی میں تُجھے کہیں نہیں دکھوں گا۔" وہ بضد تھا۔
"ہائے تُو تو سنجیدہ ہی ہو گیا۔ اچھا چل اب روٹی کھا لے۔"
"نہیں کھانی مجھے روٹی۔ جا تُو جا کے کام کر۔ وہ زیادہ ضروری ہیں۔"
"اچھا چل نا۔ مان جا اب۔ آج میں شام تک یہیں کھیتوں میں تیرے ساتھ کام کرواؤں گی۔ میں سامنے نازی کو کہہ آئی تھی کہ گھنٹے دو گھنٹے بعد گھر چکر لگا کر اماں ابا کو دیکھ جانا۔" اُس نے گویا انکشاف کیا۔
"سچ؟" حامد نے تصدیق چاہی جیسے یقین نہ آیا ہو۔
"ہاں۔" وہ مُسکرا کر دھیمے سے بولی۔
"چل ٹھیک ہے پھر کھا لیتے ہیں روٹی۔ لیکن میں تھکا ہوا ہوں۔"
"تو؟"
"تو یہ کہ اب تیری سزا ہے کہ تُو ہی مجھے کِھلائے گی۔" وہ جُھوٹی ناراضگی سے منہ بنا کر بولا اور درخت کے ساتھ ٹیک لگا لی۔
"ہاہاہا ۔ ۔ ۔تُو بھی نا۔" سلمیٰ نے مُسکراتے ہوئے سر ہلایا اور پوٹری کی گانٹھ کھولنے لگی۔
جون کی گرم دوپہر کو برگد کے درخت کے نیچے بیٹھے ایک دوسرے کو کھانا کھلاتے اور ہنستے مُسکراتے باتیں کرتے حامد اور سلمیٰ اس بات سے قطعی بے خبر تھے کہ سامنے والے درخت کی نازک سی شاخ پر چڑا اور چڑی کے ایک چھوٹے سے گھونسلے میں سے چڑا سیاہ عُقاب کا شکار بن چُکا تھا۔
 

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

حامد ایک پسماندہ سے دیہات میں مقیم شُکر دین اور بشیراں کی اکلوتی اولاد تھا۔ ان کا تعلق ایسے گھرانے سے تھا جہاں فصل اچھی ہونے کی صُورت میں سال بھر کے لیے ذخیرہ کر لیا جاتا تھا۔ اور باقی ماندہ فصل کو بیچ کر جو پیسے ملتے تھے اُس سے اچھی گُزر بسر ہو جاتی تھی۔ زندگی میں اگر کچھ تھا تو اپنے خُدا کے لیے احساسِ تشکر، سکون اور محبت۔ اگر کسی چیز کی کمی تھی تو کسی ایک انسان کی جو اس خاندان کو مکمل کر سکے۔ وہ کمی بھی تب دُور ہو گئی جب حامد کی ماں بشیراں اپنی بھانجی کو اپنی بہو بنا کر اپنے گھر لے آئی۔ زندگی بہت ہموار تھی۔ ۔ ۔کسی بھی دُکھ کے گُزر کے لیے کوئی راستہ نہ تھا۔


٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

 

"بھاگو بھاگو۔ ۔ ۔جلدی کرو۔ دریا میں آنے والے سیلاب نے دریا کا راستہ بدل بدل دیا ہے۔ ساری ہری بھری لہلہاتی فصلیں برباد ہو جائیں گی۔ جتنی مٹی ہو سکتی ہے اکٹھی کر کے یہاں پہاڑیاں بنا دو۔ شاید کچھ بچت ہو جائے۔"
گاؤں کے سب مرد، عورتیں اور بچے راستہ بدلتے دریا کو روکنے کی کوشش میں لگے رہے۔
"یہ کیا ہو گیا بے بے۔ ساری فصلیں برباد ہو گئیں۔ جو پہلے سیراب کرتا تھا آج سب برباد کر گیا۔ ایسا بھی ہوتا ہے کیا بے بے۔ ایک ہی چیز ایک وقت میں اتنا نوازے اور اگلے ہی پل میں سب اُجاڑ دے۔" اُس نے بھیگے لہجے سے پوچھا۔
"کیوں نہیں میرے بچے۔ یہی تو اس زندگی کا دستور ہے۔ اگر چھاؤں ہے تو دھوپ بھی ہے۔ جو رب نوازتا ہے وہ ہی واپس بھی لے لیتا ہے۔ یہی اس زندگی کی حقیقت ہے۔ تُو غم نہ کر۔ مشکل وقت ہے کٹ جائے گا۔ صبر کر اور رب سے دُعا کر۔ کہ وہ صبر کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے۔" بے بے اُن کے گھٹنوں پہ سر رکھ کے بیٹھی سلمیٰ کے بالوں میں پیار سے ہاتھ پھیرتے ہوئے اُسے سمجھا رہیں تھیں۔

زندگی میں آنے والی چھوٹی تکلیفیں شاید آپ کو کوئی بڑی تکلیف سہنے کےلیے تیار کرتی ہیں۔





٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭



"حامد تُو شہر جانے کا ارادہ چھوڑ نہیں سکتا؟ میرا دل نہیں مان رہا۔ میں کیسے رہوں گی اتنا عرصہ تجھ سے دُور؟"
"دیکھ سلمٰی ساری زمین برباد ہو گئی ہے۔ اتنا پانی ہے کہ نکلتا نہیں۔ جب تک زمین دوبارہ کاشت کے قابل نہیں ہو جاتی تب تک بیٹھ کے انتظار کرتا رہا تو یہ گھر کیسے چلے گا؟"
"کیسے بھی کر لیں گے۔ دونوں مل کے کچھ کر لیں گے نا۔ لیکن تُو رُک جا۔"
"چل بتا کیا کر لیں گے دونوں مل کے؟"
"وہ میں نہیں جانتی۔ لیکن بس تُو نہ جا۔"
"ہاہا۔ ۔ پگلی۔ چل سو جا اب۔ اور مجھے بھی آرام کرنے دے۔ صُبح روشنی ہونے سے پہلے نکلنا ہے مجھے۔"
"منہ اندھیرے جانا ضروری ہے؟"
"کیوں؟"
"بس مجھے ڈر لگتا ہے۔"
"ڈرنا کیسا۔ سارے راستے دیکھے بھالے ہیں۔ اپنے ہی لوگ ہیں سب۔ اندھیرے بھی اپنے ہی ہیں۔" اُس نے شرارت سے کہا "چل اب زیادہ نہ سوچ اور مجھے بھی سونے دے۔"
وہ خود تو سو گیا لیکن نیند سلمٰی کی آنکھوں صُبح تک اُس نیند کی منتظر ہی رہیں جسے آنا ہی نہیں تھا۔




٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭


"بیٹی۔ شام ڈھل رہی ہے۔ کچھ دیر میں اندھیرا پھیلنا شروع ہو جائے گا۔ چل میری دھی اب گھر چل۔" روز کی طرح آج بھی اُس کا بابا اُسے لینے آبادی سے کچھ ہٹ کر دُور کھیتوں کی طرف اُس برگد کے درخت کے نیچے آیا تھا جہاں سے وہ گاؤں سے باہر جاتے اور واپس اندر آتے راستوں کو دیکھتی رہتی تھی۔
"بابا شہر سے آنے والی بسیں ابھی نہیں آئیں؟" اُس نے پوچھا۔
"نہیں میری رانی۔ وہ صُبح آئیں گی۔" اُنھوں نے اُس کے سر پر ہاتھ رکھتے ہوئے نم آنکھوں سے پچھلے تین سالوں سے بولا جانے والا جُملہ دہرا دیا۔
"اچھا۔ صُبح آئیں گی۔ چل پھر اب گھر چلیں۔ میں حامد کے لیے اُس کی پسند کے کھانے بنا لوں۔ صُبح پھر جب وہ آئے گا تو اُس کی پسند کے سب کھانے کھلاؤں گی اور یہ بھی بتاؤں گی کہ اُس کے انتظار میں میں نے برگد کے اُس درخت کو کبھی ویران نہیں ہونے دیا جسے اُس نے میرے انتظار میں آباد کیا تھا۔
"تُو آ جا حامد۔ اب کے تُجھے کبھی انتظار نہیں کرواؤں گی۔ وعدہ۔" اُس نے ہاتھ میں پکڑے دو سال پُرانے اخبار کر کھول کے اُس کی تصویر سے وعدہ کیا۔ جس کے اُوپر لکھا تھا "تلاشِ گُمشدہ۔"

اُس کے بابا اُس کو تھام کے واپس لے جا رہے تھے اور اُن کے چار سُو اندھیرا گہرا ہوتا جا رہا تھا۔


٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
 
 
 
مکمل تحریر اور تبصرے >>

خواب یا سراب

خواب یا سراب


یہ افسانہ میں نے 16 جون 2009 کو ون اردو پر ہی منعقد ہونے والے ایک مقابلے کے لیئے لکھا تھا، اور یہ اپنے اندر بہت سی کمزوریاں اور نا پختگی لیئے ہونے کے باوجود مقابلے میں دوسرے درجے پر رہا۔



اس چلتی گاڑی سے باہر دنیا کتنی متحرک ہے۔ اپنے محور کے گرد گھومتی زندگی کو میں اس شفاف شیشے سے بخوبی دیکھ سکتا ہوں۔ کبھی منظر میں ایک بھرپور زندگی جینے میں مگن لڑکے اور لڑکیاں آ جاتے ہیں اور کبھی کچھ لڑکھڑاتے ڈگمگاتے، چلنا سیکھتے بچے نظر آتے ہیں۔ کبھی میں بھی اسی دور سے گزرا تھا، جب چلنا سیکھا کرتا تھا۔ بڑا گرایا اس زندگی نے، انہیں بھی گرائے گی، اور پھر گر کر اُٹھنے اور چلنے کے چال چلن سب سکھا دے گی۔ باہر منظر میں ہر طرف زندگی کسی رقاصہ کی طرح محوِ رقص ہے اور دیکھنے والوں کو اپنے قریب بلارہی ہے۔ ۔ ۔ ۔ یا یہ بس مجھے ہی بُلا رہی ہے؟ شاید اسے بھی احساس ہے کہ ہر گزرتے پل میں میں اس سے دور ہوتا جا رہا ہوں۔
میرے چاروں طرف شور ہی شور ہے لیکن مجھے کیوں صرف دو آوازیں سن رہی ہیں: ایک میری سانوں کا شور اور دوسرا میرے دل کی تیز ہوتی دھڑکنوں کی صدا۔ ۔ ۔ ۔ کیوں یہ دھڑکن اور یہ آوازیں ہر گزرتے پل کے ساتھ تیز ہوتی جا رہی ہیں؟ کیوں یہ سرد ہوا کے جھونکے بھی میرے پسینے سے شرابور جسم کو سکھا نہیں پا رہے ہیں۔ ۔ ۔ ۔
اپنی جس منزل پر پہنچنے کے لیئے میں اتنا عرصہ سرگرداں رہا، اتنی بے تابی اور اذیت جھیلی اُسی منزل کی اور بڑھتے ہوئے کیوں میرا جسم بے جان ہو رہا ہے۔ ۔ ۔؟ کیوں ان قدموں میں منزل کو چھو لینے کی بے چینی نہیں۔ ۔ ۔؟ کیوں میرا ماضی ایک فلم کی طرح میری آنکھوں کے پردے پر رقصاں ہے ۔ ۔ ۔؟ کچھ بھی تو ایسا نہیں میرے ماضی میں جسے یاد کر کے میں ان لمحوں کے کرب کو خود پہ آسان کر سکوں۔
مجھے آج بھی یاد ہے سات سال کی عمر میں اُٹھایا گیا وہ ایک قدم مجھے ان راہوں پہ لے آیا۔ ۔ ۔
صوبہ سندھ کے ایک چھوٹے سے دیہات میں رہنے والا میں محمد بشیر، ایک کسان والدین کی اولاد۔ ۔۔ میرا تعلق ایک ایسے گھرانے سے ہے جہاں کھانے کو نوالے بھی گِن کے دیئے جاتے تھے ، عید کی عید کپڑے ملتے تھے جو ہمارے لیئے تو نئے ہوتے لیکن کسی اور کے لیئے بوسیدہ ڈھیر۔ ہم نو بہن بھائیوں کے ماں باپ رات دن کھیتوں میں کام کرتے اور ان کی کل آمدنی بس ہمارے کھانے پینے کا سامان ہی کر پاتی۔
میں ان دنوں بمشکل سات یا آٹھ سالوں کا ہوں گا، جب مجھ میں ایک لگن جاگی۔ ۔ ۔
کچھ کرنے کی لگن، جاننے کی لگن، کچھ بننے کی لگن۔
یہ شوق مجھے ہمارے گاؤں سے تعلق رکھنے والے جمیل صاحب کو دیکھ کے ہوا تھا۔ وہ کم سنی کی عمر میں ہی شہر لاہور چلے گئے تھے پڑھنے کے لیئے اور اب پڑھ لکھ کر صاحب لوگ بن چکے تھے۔ جب وہ اپنے اماں ابا سے ملنے گاؤں آتے تو ہر آنکھ انہیں دیکھ لینے کے لیئے بے تاب ہوتی اور ہر لب ان کی تعریف کو مچلا جاتا تھا۔ پورے گاؤں میں ان جیسا مکان بھی کسی اور کا نہ تھا۔
ایک بار وہ جب گاؤں آئے تو اپنے ساتھ ایک بڑا سا ڈبہ اٹھا لائے جس کا نام بعد میں انہوں نے ٹی وی بتایا تھا۔ اُن کے ابا میاں گرمیوں میں شام کے بعد اس ٹی وی کو باہر نکال کے رکھ دیتے اور پورے گاؤں کو اجازت تھی کہ وہ زمین پہ بیٹھ کے اس میں چلنے والی رنگ برنگی تصویروں کو دیکھ سکتا تھا۔ میں نہیں جانتا تھا سب انہیں دیکھ کے کیسا محسوس کرتے تھے لیکن میری بے تابی بڑھتی جاتی تھی۔ کچھ بننے کا شوق کچھ کرنے کی لگن کسی منہ زور سمندر کی طرح مجھ میں اُٹھا تھا۔
انہیں دنوں اس ٹی وی پہ ایک اشتہار آیا
"پڑھا لکھا پنجاب خوشحال پاکستان**"۔
اس ایک فقرے نے میری راہوں کا تعین کر دیا۔ میری آنکھوں میں ایک خواب جاگا۔ ۔ ۔ میں تہیہ کر چکا تھا اب مجھے کیا کرنا ہے۔ میرے خواب میری منزل میرے سامنے تھی۔ ۔ ۔ اور اسی رات میں اپنی ماں کی جمع پُونجی میں سے کچھ رقم جو کہ صرف سفر میں درکار تھی، لے کر اپنی منزل کی اور بڑھ گیا۔ آدھی رات کو میں لاہور جانے والی گاڑی پر چڑھا اور کسی نہ کسی طرح لاہور لاری اڈے پہ اتر گیا۔ ۔ ۔

لاہور۔ ۔ ۔ خوابوں کا شہر۔ ۔ ۔ لیکن اُس وقت ایک ہولناک تعبیر کی صورت میں میرے سامنے کھڑا تھا۔ وہ لوگ، وہ منظر وہ فضا ئیں ، سب کتنا اجنبی تھا، میری آنکھیں کسی شناسا کسی مددگار کی متلاشی تھیں لیکن اس تلاش کا کچھ حاصل نہ نکلا۔ ۔۔
ایک دم میری آنکھیں بھیگنے لگیں، پھر مجھے احساس ہوا میں رو رہا ہوں، کیوں۔ ۔ ۔ کس وجہ سے۔ ۔۔ ۔ یہ نہیں جانتا تھا، شاید قدرت مجھے میرے ہونے والے انجام پر رُلا رہی تھی۔ میں نے بہت پوچھا، بہت ڈھونڈا اپنی جنت کا پتہ، وہ اسکول جس میں مُفت تعلیم دی جائے، جس کی تلاش میں میں یہاں تک بے سروسامانی کی کیفیت میں چل نکلا تھا۔ مجھے راہیں تو مل گئیں تھیں لیکن میری منزل کھو گئی تھی۔ میں سارا دن ایسے ہی مارا مارا پھرتا رہا، روتا رہا، لیکن کوئی نہ آیا۔ ۔۔ ۔
شام کو ایک فُٹ پاتھ پہ تھک کے بیٹھا اور وہیں سو گیا۔ ۔۔ ۔ تب شاید قدرت کو مجھ پہ رحم آ گیا تھا یا پھر فرشتے کے روپ میں کوئی بھیڑیا تھا؟ اس کا تعین میں آج تک نہیں کر پایا۔
مجھے نیند سے ایک مشفق آواز نے جگایا
”اُٹھو بیٹا! یہاں کیوں سو رہے ہو؟ گھر کیوں نہیں جاتے؟“
”جی میں گھر سے بھاگ کے آیا ہوں یہاں پڑھنے کے لیئے۔“ میں نے بھرائے ہوئے لہجے میں کہا۔
” تم کیا پڑھنے آئے ہو بیٹے۔ ۔ ۔ اور کہاں سے پڑھنا ہے۔ ۔ ۔ ؟ ۔
” پتہ نہیں جی میں نے ٹی وی پر اشتہار دیکھا تھا اور بس آ گیا۔“ میرا اعتماد ان کے شفیق اور اپنائیت سے بھرپور لہجے کی وجہ سے تھوڑا تھوڑا بحال ہو رہا تھا۔
اس کے بعد ان دونوں حضرات میں کیا بات چیت ہوئی مجھے کوئی اندازہ نہیں لیکن اس کے بعد مجھے ان کے ساتھ چلنے کی نوید سنائی گئی اور میں بخوشی ان کے ساتھ ہو گیا،اور مجھے لگا میرا خواب تعبیر پانے والا ہے۔
اُس کے بعد سے جیسے زندگی ہی پلٹ گئی، کتنی نئی تھی یہ دنیا میرے لیئے، کھانے کی بہتات، پہننے کو اچھا لباس، سونے کے لیئے آرام دہ بستر۔ دو دن بعد ہی مجھے کسی اور جگہ پہنچا دیا گیا، جہاں میرے جیسے اور بھی کئی بچے تھے۔ کچھ تو ان میں سے خود میں مگن تھے، کئی بے فکری سے کھیلتے کودتے اور کچھ اپنے گھروں کو واپس جانے کے لیئے افسردہ۔ مجھے وہاں جا کے ایک عجیب سی خوشی اور سکون ملا، زندگی کی وہ تمام آسائشیں جن سے میں محروم رہا یہاں مجھے ملیں۔
کچھ عرصے تک تو تعلیم کی طرف توجہ نہیں دی گئی البتہ کچھ کام کاج سکھائے گئے۔ اُس کے بعد تعلیم کا مرحلہ بھی آیا، لیکن ہمیں بس مذہبی تعلیم ہی دی جاتی۔ قاعدہ پڑھایا گیا، حروف سکھائے گئے، پھر الفاظ سے ہوتے ہوئے آیات اور پھر بالآخر سپارہ ختم ہوا، نماز پڑھنا سکھائی گئی، ارکان سکھائے گئے اور سب پر سختی سے عمل کروایا گیا، لیکن کبھی ان پڑھائے جانے والے الفاظ کا ترجمہ یا مفہوم نہیں بتایا گیا، سوچوں کی اُڑان پر پہرے تھے۔ ۔۔۔ پھر جب مزید چند سال گزرے تو جہاد، نیکی کو پھیلانے اور بدی کو روکنے پر چند کتابیں پڑھائی گئیں۔ تعلیم کے معاملے میں طلباء بے اختیار تھے، انہیں وہی پڑھنا ہوتا جو اُستاد صاحب پڑھاتے، نہ ہم کتاب کا تعین کر سکتے تھے نہ ان کی بتائی ہوئی کسی بات پر اختلاف یا سوال۔ اور استاد کی نافرمانی کو ایک گناہِ عظیم بتا کر ہماری روح تک میں جذب کرا دیا گیا۔ استاد جی کہتے دن ہے تو دن، رات ہے تو رات۔ کسی کو اس پہ شک کرنے کی بھی اجازت نہ تھی۔
وقت گزرتا گیا، عمر بڑھتی گئی اور زندگی اپنے رنگ کھوتی گئی۔ ۔ ۔ اس عرصے میں ہمیں آنکھیں بند کرا کے ایک گمنام سفر طے کروایا گیا، اور جب آنکھیں کُھلیں تو بے فکری اور اطمینان کی جگہ ایک انجانی سی کسک نے لے لی۔ زندگی کی روشنیاں آنکھوں میں چُبھنے لگ گئیں۔ مجھے پتہ بھی نا چلا یہ سب کب سے اور کیسے ہوا۔ ۔ ۔ ؟ لیکن اپنی نوجوانی تک پہنچتے پہنچتے ہر چیز اپنی کشش کھو چکی تھی۔ آنکھیں بس ملک میں ہونے والے فسادات دیکھتیں، کان مظلوم عورتوں اور بچوں کی چیخ و پکار سُنتے اور دل میں ایک نفرت اور غصہ بھرا تھا، بھرا تھا یا بھر دیا گیا تھا۔ ۔ ۔ ۔ میں وثوق سے کچھ کہہ نہیں سکتا۔ ۔ ۔ ۔ لیکن بس جی چاہتا تھا کچھ ہو جائے اور ہر طرف ایک سکون چھا جائے اور سب ٹھیک ہو جائے۔
پھر اُنہی دنوں، مجھے میرے ایک استاد کے ساتھ ایک سفر کی سعادت نصیب ہوئی۔ وہ سفر تھا۔۔ ۔ ۔ جنت تک کا سفر ۔ ۔ ۔

جنت۔ ۔ ۔ ۔ جس کا تصور سالوں سے گھوٹ گھوٹ کر ہمیں پلایا گیا تھا، جو اب شاید ہمارے خون میں رچ بس گیا تھا۔ وہی جنت ان آنکھوں کے سامنے جلوہ گر تھی۔
کیسا سکون تھا، کیسا ٹھہراؤ تھا وہاں کی فضاؤں میں، ٹھنڈی زمین پر قدم رکھتے ہی روح تک ایک سکون سرائیت کر گیا تھا۔ یوں لگتا تھا کہ زندگی کے اس جلتے تپتے صحرا میں ماں کے آنچل نے چھاؤں اور مامتا کی ٹھنڈی آغوش میسر آگئی ہو۔ وہاں میں نے عُمرہ کیا، نفل ادا کیئے اور پھر واپس اپنی اس بے رنگ دنیا میں آ گیا، لیکن پھر اس بے رنگ زندگی میں رنگ بھرے گئے، مجھے جو جنت دکھا کے چھپا لی گئی، اسے پا لینے کی خواہش آہستہ آہستہ جنون کی کیفیت اختیار کرتی جا رہی تھی ۔ حقیقی جنت کا تصور تو اس بھی کہیں بڑھ کے تھا۔
کچھ دن مجھے میری ان سوچوں کے ساتھ اکیلا چھوڑا گیا لیکن اس کے بعد، میری اس پیاس کو مزید بڑھا دیا گیا۔۔ ۔ ۔
روحانیت کیا ہوتی ہے؟ بدی کو مٹانے کے علاوہ مذہب اور کیا کہتا ہے؟ خدا اور اس کی ذات کیا ہوتی ہے؟ اس کے بارے میں ہمیں کبھی آگاہی نہیں دی گئی اور نہ ہی سوال کرنے کی اجازت۔ ہمیں فقط اتنا درس دیا گیا کہ کس طرح شیطان کے کارندوں نے اس زمین پر فساد برپا کیا ہوا ہے، اور ان کارندوں کو مٹانا ہی ہماری زندگی کا مقصد ہے، اور اس کے لیئے جان جائے تو یہ ایک سعادت ہے، ایک شہادت ہے۔ اور اس کا موقع اللہ پاک اپنے خاص بندوں کو ہی عطا فرماتا ہے۔
مجھے اپنے ایک مسلسل اضطراب کی وجہ سمجھ میں آ گئی، کہ کیوں میرے دن عذاب اور راتیں بے خواب ہیں، میری جاگتی آنکھوں میں ایک خواب بس گیا، اس سعادت کو حاصل کرنے کا۔
پھر یہ زندگی مجھے ایک خار دار ڈال کی طرح لگنے لگی، جسے ہم انسان اپنے دونوں ہاتھوں میں بھینچے رکھتے ہیں اور وقت سرکتے ہوئے اس ڈال کو لمحہ لمحہ ہمارے ہاتھوں سے کھینچتا ہے۔ بدلے میں صرف گھاؤ ملتا ہے، ہاتھ لہو لہان ہو جاتے ہیں لیکن وہ ڈال چھوڑنے پر ہاتھ راضی نہیں ہوتے۔ لیکن میں اب اس ڈال کی تکلیف دہ پکڑ سے تنگ آ چکا تھا۔ میری منزل تو میرا وہ خواب میری جنت تھی، جس کا جلوہ میں کچھ دن پہلے ان آنکھوں سے دیکھ کے آیا تھا۔
پھر یوں ہوا، کچھ دن بعد میرا وہ خواب تعبیر لیئے میرے سامنے تھا۔ وہ جسے پانے کے لیئے میں میں تدبیریں کیا کرتا تھا ، وہ مجھے بنا کچھ کیئے ہی مل گئی، بنا مانگے ہی۔
ایک بار پھر میرا خواب حقیقت کا لبادہ اوڑھے میرے سامنے تھا۔

پھر وہ صبح طلوع ہوئی، جس دن مجھے میری تعبیر ملنی تھی۔ کچھ بھی تو نہیں کرنا تھا مجھے، صبح صبح نہا دھو کے نفل ادا کیئے، سب نے مشترکہ طور پر اپنے رب کے ہاں اس دی جانے والی قربانی کی قبولیت کی دعا مانگی، پھر سب نے مجھے اور میرے دو ساتھیوں کو شہادت کی مبارکباد دینی شروع کر دی، اور اب میں اس گاڑی میں بیٹھا اپنے ماضی کے اوراق اُلٹ رہا ہوں۔
آج مجھے اس بے چینی، اس تکلیف سے نجات مل جائے گی، چند گھنٹے۔ ۔ ۔۔ صرف چند گھنٹے اور، پھر بس میں ہوں گا اور ایک دائمی سکون اور عشرت۔ جہاں کہیں ان آنکھوں کو یہ خون خرابا نہیں دیکھنا پڑے گا، کہیں مظلوم عورتوں اور بچوں کی چیخ و پکار نہیں ہو گی، ہو گا تو بس آرام ہی آرام اور سکون ہی سکون۔
میں کب سے خود کو یہی سمجھا رہا ہوں لیکن مجھے کیوں لگ رہا ہے کہ میرے لفظ کھوکھلے اور یہ بہلاوے جھوٹے ہیں۔ آج کیوں وہ سب استاد جن پر آنکھ بند کے اعتبار کرتا تھا وہ سب جھوٹے اور مکار لگ رہے ہیں۔ کیوں میرا تنفس اتنا تیز ہے کہ اس کے شور میں کئی سالوں حاصل کیئے جانے والے سبق کی آوازیں ماند پڑ رہی ہیں۔ ۔ ۔ ۔ کیوں دل اتنی تیزی سے دھڑک رہا ہے کہ ایسا لگتا ہے ابھی سینے سے باہر نکل کر میرا گریبان پکڑ لے گا ۔ ۔۔ ۔ زندگی کی اس خاردار ڈال پہ چھوٹتے سمے ایک نرم و نازک گلاب کا گماں کیوں ہو رہا ہے، جسے ہمیشہ تھامے رکھنے کو دل چاہے۔۔ ۔ ۔ میرا خواب میری منزل سب مدھم کیوں ہو گئے۔ ۔۔ ۔ اب ان آنکھوں سے وہ تمام کرب ناک منظر ہٹ گئے ہیں اور ایک بچے کی معصوم سی مسکان ہی بھلی لگنے لگ گئی ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔
کیا میں بھی بد ہو گیا ہوں۔ ۔ ۔ ۔؟ کیا برائی کے اس کارندے نے مجھے بھی محصور کر لیا ہے۔ ۔ ۔ ؟ جو مجھے چند منٹوں میں ملنے والی شہادت معتبر محسوس نہیں ہو رہی۔ ۔۔ ۔ کیا میں ڈر رہا ہوں یا میرا عمل ہی باعثِ اطمینان نہیں۔ ۔ ۔ ۔؟
گاڑی ایک چرچراہٹ کی آواز سے رُک گئی ہے اور میرے باقی دو ساتھی ایک سرعت سے نیچے اترے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ لیکن میں کیوں پتھر ہو رہا ہوں۔ ۔ ۔ یا میں مرنے سے پہلے ہی مر گیا۔۔ ۔ ۔ یہ گولیوں کی آواز کسی صُور کی مانند لگ رہی ہیں، لیکن صُور تو ابھی پھونکا جائے گا، وہ صُور جو اس وقت میرے بدن پر بندھا ہے۔ میں تو بخوشی راضی ہوا تھا اب کیوں میرا کلیجہ دہل رہا ہے۔ ۔ ۔۔ گاڑی عمارت کے اندرونی حصے میں داخل ہوئی ہے، اور وقت تھم گیا۔ ۔ ۔ میں سمجھ نہیں پا رہا اپنے دل کی آواز اپنی سانسوں کا بین اور یہ کیسی آواز اُبھر رہی ہے میرے کانوں کے نزدیک۔ ۔۔ یہ تو میرا ہی ساتھی ہے، کیا کہہ رہا ہے یہ۔ ۔ ۔ ۔؟ 7۔ ۔ ۔ 6۔ ۔ ۔ 5۔ ۔ ۔ سب ختم ہونے میں فقط کچھ پل، میری زندگی کا حاصل ایسی موت۔ ۔ ۔ جہنم سے پہلے جہنم کی آگ۔ ۔ ۔4۔ ۔ ۔ 3۔ ۔ ۔ اور اب سب ختم ہو جائے گا، میرا خواب، میری جنت کیا فقط ایک سراب تھا۔ ۔ ۔۔ ? اور میرا ایسا وقتِ آخر۔ ۔ ۔ ؟ یا اللہ۔ ۔ ۔ 2۔ ۔۔ ۔ ۔1۔ ۔ ۔ ۔0000 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
.
.
.
.
.
.
سب ختم ہو گیا، یہ دنیا، بدی، برائی کے کارندے اور کئی بے گناہ بھی شاید ۔ ۔ ۔ ۔
کیا ان میں کوئی نے گناہ بھی ہو سکتا ہے۔ ۔۔ ۔ یہ سب میں نے پہلے کیوں نہیں سوچا۔ ۔ ۔ کیا اسی لیئے میری روح بے چین ہے، ابھی تک تاریکیوں میں گم ہے۔ ۔ ۔ وہ روشنیاں کہاں گئیں جو ایسی شہادت کے بعد میرا استقبال کرنے آنے والی تھیں۔ ۔ ۔
کیا چند لمحوں پہلے جب میں حیات تھا تو وہ اضطراب اسی لیے تھا کہ میں بدی کے خلاف جنگ پر نہیں بلکہ معصوم، نہتّے اور آنے والی موت سے بے خبر لوگوں کے لیئے ایک سانحہ بن کر آ رہا تھا۔ ۔ ۔۔ کیا میرا دل مجھے روک رہا تھا۔ ۔ ۔۔ ؟ اور وہ سانسوں کا شور مجھے میرے غلط ہونے کی دُہائی دے رہے تھے۔ ۔ ۔؟ کیا ان سب کا خون میری گردن پر ہے۔ ۔ ۔ ؟
اس سب میں میں کتنا قصوروار ہوں۔ ۔ ۔ زندگی کو میرے سامنے اسی طرض سے رکھا گیا تھا، اور سالوں مجھے اسی کام کے لیئے تیار کیا گیا تھا، شعور اور آگاہی کے دروازوں کو مجھ پر بند کر دیا تھا تھا۔ ۔ ۔ ۔ میری آنکھوں کو فقط ایک خواب دیا گیا تھا جنت کا حصول اور اس خواب کی منزل یہی تھی۔ ۔ ۔ ۔ وہ سب کیا تھا۔ ۔ ۔۔؟ اب کیوں میری روح بھٹک رہی ہے۔ ۔ ۔ ۔ کیا یہ میرا خود ساختہ عمل تھا، اور میں سزا کا حقدار ہوں۔ ۔ ۔ ۔ میں کم علم تھا یا بنا دیا گیا۔ ۔ ۔ ۔ کون دے گا مجھے ان سوالوں کے جواب۔ ۔ ۔ ۔ کون؟


(پچھلے دنوں پی ٹی وی پہ ایک کمرشل آتی تھی "پڑھا لکھا پنجاب خوشحال پاکستان" اور اس میں یہ بتایا جاتا تھا کہ سرکاری اسکولوں میں مڈل تک تعلیم مُفت ہے۔)
مکمل تحریر اور تبصرے >>

جو تھم جائے وہ زندگی نہیں

جو تھم جائے وہ زندگی نہیں


زندگی منسوب ہے
سانسوں کے چلنے سے
دلوں کے دھڑکنے سے
آہوں کے مچلنے اور
خوابوں کے سنورنے سے
سو جو تھم جائے۔۔
وہ زندگی نہیں۔۔


زندگی کیا ہے سوائے ایک مسافت کے۔۔ ایک ایسی مسافت جس کی منزل تو متعین ہے پر راہیں جُدا جُدا۔۔ انجان و خفا خفا۔۔ خفا یوں کہ جانے کب، کہاں وہ یک دم آپ سے اپنا ہاتھ چھڑا لیں اور آپ کو ایک نئی راہ کے حوالے کرنے میں ایک پل کو بھی نہ ہچکچائیں۔۔ اُن راہوں کو اس سے کوئی غرض نہیں کہ آپ کی زندگی کے وہ رنگ ڈھنگ، وہ دوست ساتھی جو آپ کے لیے بہت اہم ہوتے ہیں، اس کے ساتھ ہی پیچھے۔۔۔ کہیں بہت پیچھے رہ جاتے ہیں۔۔
کسی کو بھی اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ان راہوں پر چل کر آپ نے زندگی کو سمجھا ہوتا ہے، خود کی پہچان کی ہوتی ہے اور کئی دوستوں، کئی رشتوں کو پایا ہوتا ہے۔۔۔ اور پھر وہ سب پھول لمحے اور خوشبو باتیں۔۔ انہی راہوں کے ساتھ ہی آپ کو الوداع کہہ دیتی ہیں۔۔

اب آگے۔۔ نئی راہیں، نئی زندگی اور نئی باتیں آپ کی منتظر ہیں۔۔۔ ایک بار پھر ایک نیا امتحان آپ کے سامنے ہے۔ پھر سے آزمائش کی کئی کسوٹیاں آپ کے لئے تیار آپ کی منتظر کھڑی ہیں۔۔ بہت سے نئے چیلنجز آپ ان راہوں میں کھڑے آپ کو شکست دینے کو پوری طرح تیار کھڑے ہیں۔۔ اب پھر سے ایک نئی راہ سے ملنے والے تمام پھولوں اور کانٹوں کو چُن کر آپ نے اپنا دامن بھرنا ہے۔۔ اور آگے بڑھتے جانا ہے۔۔ بڑھتے جانا ہے۔۔۔۔

میں۔ ۔ ۔ ایک بار پھر ایک دو راہے پر کھڑی ہوں۔ میرے آگے ایک نئی دنیا، کئی نئے شب و روز، کچھ خوش رنگ بہاریں اور کچھ دلسوز خزایں مجھے اپنی بانہوں میں سمیٹ لینے کو تیار کھڑی ہیں۔۔ یہ سب مسکرا مسکرا کر مجھے دیکھتیں۔۔ مجھے اپنی اَور بلاتی ہیں، لیکن۔۔۔ کچھ ہے جو میرے قدم روکتا ہے۔۔
میں پلٹ کر دیکھوں تو معلوم ہوتا ہے کہ پچھلی راہوں کی یادیں۔۔ بہت سی باتیں۔۔ کچھ سردیوں کی ٹھنڈی بارشیں اور کچھ گرمیوں کی طویل دوپہروں میں گہرے نیلے سمندر کی وہ اٹکھیلیاں۔۔کچھ قہقہے تو کچھ آنسو۔۔ میرا پلو پکڑے، حسرت سے مجھے تک رہے ہیں۔۔ ان کی آنکھوں میں، اُن کے چہرے پر ایک بے یقینی اور ایک سوال ہے۔۔ کیا تم چلی جاؤ گی۔۔؟
ان کے اس سوال کی بازگشت مجھے اپنے وجود میں بھی کہیں سنائی پڑتی ہے۔۔

کیا میں چلی جاؤں گی۔۔؟ کیا واقعی میں چلی جاؤں گی۔۔؟

ہاں۔۔!! میں چلی جاؤں گی۔۔ مجھے جانا ہی ہے۔۔ ہر اس چیز اور انسان سے دور جو کبھی میری ہم نوا ہو کرتی تھی۔۔ ان سب سے کہیں بہت دُور۔۔ کسی نئی دنیا میں۔۔

اور اب جب میں جانے کے لیے تیار کھڑی ہوں تو ان سب کی طرف سے مجھے ایک تحفہ بھی پیش کیا گیا ہے۔۔ جب میں اس تحفے کی طرف دیکھتی ہوں تو مجھے معلوم ہوتا ہے کہ یہ ایک بہت ہی خوبصورت گُلدستہ ہے۔۔ اس میں ہر رنگ کے، میری یادوں کے کئی پھول ہیں۔۔ کچھ خوشبو دار لمحے بھی۔۔ غور سے دیکھوں۔۔ تو کچھ کانٹے بھی ہیں۔۔ آج تو وہ بھی مسکا رہے ہیں، جیسے کہہ رہے ہوں۔۔
"دیکھا! ہم نے ہی تو تمہیں یہ ہمت، یہ بہادری بخشی۔۔ اگر ہم تمہیں چھوٹی چھوٹی تکلیفوں سے گھائل نہ کیا کرتے تو آج اتنی بڑی تکلیف کیسے سہہ پاتیں۔۔؟" ان کی بات سن کر میرے ہونٹوں پر ایک زخمی سی مسکراہٹ آ جاتی ہے۔۔
اس گُلدستے میں وہ سب کچھ مقید ہے جو میں نے ان راہوں سے پایا۔۔ اس میں جِیا۔۔ اب رُخصت کا وقت آ گیا ہے۔۔ مجھے جانا ہے۔۔ میں ان سب سے منہ موڑتی ہوں اور آگے بڑھ جاتی ہوں۔۔۔

آگے۔۔ ایک نئی زندگی کو اپنا ہاتھ تھما رہی ہوں۔۔ آنکھیں نم ہیں۔۔ قدم بوجھل۔۔ دل پُر سوز۔۔ لیکن پھر جب میری نظر اس گُلدستے پر پڑی تو ہونٹوں اور آنکھوں میں ایک مسکراہٹ جگمگا اُٹھی۔۔۔ دل سے فوراً ایک آواز آئی۔۔۔
"میں نے کیا کھویا؟ کچھ بھی تو نہیں۔۔ اُس سب کو تو یادوں کے اس گُلدستے کی صُورت میں اپنے ساتھ لے تو آئی۔۔ سب میرے پاس ہی تو ہے۔۔" دل کی بات پر دماغ سرشار ہو گیا اور فوراً تمام وجود کو ایک خوشی کا پیغام ارسال کیا۔۔

اب میری چال میں اعتماد اور آنکھوں میں ایک چمک ہے۔۔

میں اس نئی زندگی کی نئی صبح کا سورج، اُگتا دیکھنے کے لیے تیار ہوں۔۔ اب میری نظر میں زندگی سے آنکھیں ملا کر چلنے کا حوصلہ موجود ہے۔۔ کیونکہ میرا ماضی میرا کل۔۔ اُس سے سیکھی جانے والی ہر بات، اُس کے لمحوں کی ہر یاد۔۔۔ مجھ سے چُھوٹی نہیں۔۔ میرے ساتھ ہے۔۔ اب میں زندگی کی راہوں پر آگے بڑھ رہی ہوں۔۔ اور مجھے سدا یونہی آگے بڑھنا ہے۔۔ کیونکہ
جو تھم جائے،،، وہ زندگی نہیں 
مکمل تحریر اور تبصرے >>

منزلوں سے آگے

منزلوں سے آگے
 

 


منزلیں کیا ہیں؟
  فقط ایک اختتام
جہاں مسافتیں دم توڑتیں
  راہیں بھی راہ چھوڑتیں
  جہاں من میں کوئی لگن نہیں
  خواہشون کی میٹھی اگن نہیں
  جہاں سکوتِ مرگ ہے چھایا ہوا
  اور دل بھی ہے گھبرایا ہوا 
   شوقِ سفر ہے کہ جاتا نہیں
کوئی سرا کبھی ہاتھ آتا نہیں۔۔۔ 
 

انسان اپنی ساری زندگی لگا دیتا ہے اپنی تعین کی ہوئی منزل کو پانے میں۔ کیا کیا نہیں کرتا وہ؟ اپنا رات دن کا آرام خود پر حرام کر لیتا ہے۔ کبھی کبھی حصول کے جنون میں تو وہ صحیح غلط، حلال حرام کی حدوں کو بھی پھلانگ جاتا ہے۔ اس کی نظر راہ کے چناؤ پر ہوتی ہی کب ہے؟ وہ تو کسی منجھے ہوئے کھلاڑی کی طرح دُور کی دیکھتا اور سوچتا ہے اور اپنی بہت نزدیک کی غلطیاں کبھی اُس کی چشم بینا سے نہیں گُزرتی۔

رشتے ناطے نبھانا تو ایک طرف وہ اُس واحد ذات کو بھی فراموش کر بیٹھتا ہے جس نے اُسے ہی نہیں کُل کائنات کو تخلیق کیا ہے۔ انسان اُس کی نعمت سے فیض یاب تو ہوتا رہتا ہے۔ ۔ رنگوں کو دیکھے تو خوشی محسوس کرتا ہے۔ ۔ شدید گرمی میں گِھر آنے والے بادلوں پر ایک ٹھنڈی پُر سکون آہ بھرتا ہے۔ ۔ سانس لیتا اور ہر طور ان نعمتوں سے بھرپور استفادہ تو حاصل کرتا ہے لیکن اپنی غفلت میں وہ ان سب کا شکر ادا کرنا تو دور ان سب کی اہمیت کو سراہنا اور یہ احساس تک کہ وہ کیسی کیسی نعمتوں سے فیض یاب ہو رہا ہے۔ ۔ تک بھول بیٹھتا ہے۔ ۔ اور بھولتا ہی چلا جاتا ہے۔ ۔


اور پھر۔ ۔ ایک وقت آتا ہے۔ ۔ جب اُس کی یہ تمام تر کاوشیں اور بے نیازی رنگ لاتی ہے اور وہ اپنی منزل کو پا بھی لیتا ہے۔ ۔ وہی منزل جس کے لیے وہ ساری زندگی دوڑ دھوپ اور ان تھک کاوشیں کرتا رہا۔ ۔ جاگتے سوتے وہ اُسی کے خواب دیکھتارہا۔ ۔ اور پھر وہی خواب ایک مجسم حقیقت بن کر اُس کے سامنے آ جاتے ہیں۔ ۔ لاحاصل حاصل ہو جاتا ہے۔ ۔ اور وہ اپنی جیت اپنی فتح کے نشے میں سرشار رہنے لگتا ہے۔

لیکن وہ بھول جاتا ہے کہ نشہ تو نشہ ہوتا ہے۔ ۔ اور اُسے اُترنا ہی ہوتا ہے۔ ۔ کچھ عرصے بعد وہ اُسی چیز سے جس کے لیے وہ ساری زندگی تگ و دو کرتا رہا۔ ۔ سے بے نیاز ہونے لگتا ہے۔ ۔ اور پھر غافل۔ ۔ زندگی یک دم بیزار سی نظر آنے لگ جاتی ہے۔ ۔ وہی انسان اُس یکسانیت سے گھبرا کر سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ وہ تو ساری زندگی ایک جدوجہدِ مسلسل کا عادی رہا۔ لڑنا۔ ۔ زندگی کی دوڑ میں دوڑنا۔ ۔ کامیابی اور ناکامی کے بیچ ڈولنا۔ ۔ اور اس اذیت سے لطف اندوز ہونا۔ ۔ یہ سب تو اب اُس کی ذات کا حصہ بن چُکا ہے۔ ۔ تو یہ کیسا مقام ہے جہاں اس زندگی میں کوئی زندگی ہی نہیں۔ ۔ جہاں راہیں بے جان اور دل خواہشوں کی لذت افزا تکلیف سے نا آشنا ہے۔ ۔ جہاں اس کی ذات ادھوری سی ہے۔ ۔

تب۔ ۔ کچھ تو اپنی اگلی منزل کا تعین کر کے پھر سے دیوانہ وار اُس کے حصول میں جُت جاتے ہیں لیکن تبھی۔ ۔ کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو اس گورکھ دھندے کو سمجھ جاتے ہیں۔ ۔ وہ جان لیتے ہیں کہ یہ منزلیں تو کچھ بھی نہیں سوائے ٹھہراؤ۔ ۔ سکوت اور موت کے۔ ۔ ۔ اور کیا اسی مضطرب سکوت کے لیے تمام عمر وہ ان نعمتوں سے منہ موڑت رہے۔ ۔ خوشی کے پل گنواتے رہے اور خُدا کا شکر ادا کرنے سے غافل رہے؟ تب اُن پر یہ انکشاف ہوتا ہے کہ اصل چیز تو سفر ہے۔ ۔ دیوانگیٴ سفر۔ ۔ اور یہ منزلیں۔ ۔ فقط ایک سراب ہیں۔ ۔ ایک خوبصورت دھوکہ۔ ۔ جو حاصل ہو کر بھی لا حاصل رہتا ہے۔ ۔ لاحاصل۔
اس زنگی کا حاصل اگر کچھ ہے تو وہ ہے صرف خدائے واحد کی ذات اور اُس کی خوشنودی۔ ۔ اور زندگی کے اس سفر کی منزل کچھ ہے تو۔ ۔ وہ ہے۔ ۔ موت۔ ۔!!!
۔
۔
۔
تو کیا اپنی ان دنیاوی منزلوں کے حصول کے لیے ہمیں یوں اپنی حقیقت سے منہ موڑنا چاہیے؟
*****
مکمل تحریر اور تبصرے >>

سیدھا راستہ

سیدھا راستہ


کیا آپ نے کبھی چلتے ہوئے خود پر غور کیا ہے؟ کیا آپ جانتے ہیں کہ آپ کیسے چلتے ہیں؟ یا آپ بھی اُن لوگوں میں سے ہیں جو ہمیشہ دوسروں کو ہی قابلِ غور سمجھتے ہیں اور اپنی ہستی سے کہیں دور نکل جاتے ہیں ۔ ۔۔ فراموش کیئے رہتے ہیں خود کو؟

کل شاپنگ مال کے لمبے، بڑے اور لوگوں سے کھچا کھچ بھرے سفید سنگِ مرمر کے فرش پر چلتے ہوئے ایک عجیب خیال نے مجھے اپنی طرف متوجہ کیا۔ اُلٹے سیدھے راستوں پر چلتے چلتے ایک دم میرا دل چاہا کہ میں اس فرش میں ماربل کے دو بلاکس کو جوڑتی اس سیدھی لائن پر دور تک چلوں۔ ۔ بس پھر کیا تھا، ارداہ باندھا اور ہو لی اپنے متعین کیئے ہوئے راستے کو۔
اس پر چلتے ہوئے مجھے احساس ہوا کہ بظاہر سیدھا اور سادہ نظر آنے والا یہ راستہ بھی اس قدر دشوار اور پیچیدہ ہو سکتا ہے۔ اُس پر چلتے قدم خود بخود ڈگمگا جاتے، یوں لگ رہا تھا جیسے بہت سی قوتیں آپ کو اس راستے سے ہٹانا چاہ رہی ہوں۔ اس پرقدم جما کر چلتے رہنے کے لیئے مجھے بہت کوشش کرنی پڑ رہی تھی۔ دنیا میں شاید ہر چیز کا کوئی نہ کوئی تقاضا ہوتا ہے۔ لوگوں کے تقاضے، رشتوں کے تقاضے، دنیا داری کے تقاضے۔ اسی طرح اس راستے کا بھی ایک تقاضا تھا، کہ پوری توجہ اور ارتکاز کے ساتھ اس پر چلا جائے
ورنہ یہ راستہ آپ کو اپنا راہی بنانے کو تیار نہ تھا۔ سو جب اس کے تقاضے پورے کر کے اس پر قدم آگے بڑھانے شروع کیئے تو یہ نیا راستہ اکتاہٹ کی بجائے لطف دینے لگا، اس پر چلنے میں مزہ آنے لگا اور خود اعتمادی بھی پیدا ہو گئی۔ اپنے ارد گرد لوگوں سے بلکل بے نیاز ہو گئی کہ کہیں وہ مجھ پر ہنس تو نہیں رہے، تعجب سے میری طرف دیکھ تو نہیں رہے۔ بس میں تھی اور ایک لگن، اس راستہ کو عبور کرنے کی۔۔۔۔
اورآخر کار میں کر ہی پائی۔ ۔ ۔ ۔

اگر ہم غور کریں تو یہ دنیا بھی ایک شاپنگ مال کی طرح ہے، جہاں ہزاروں سینکڑوں چیزیں آپ کو اپنی طرف متوجہ کرتی ہیں آپ کو اپنی طرف کھینچتی ہیں بلکل ایسے ہی جیسے کششِ ثقل اپنے سے دور ہٹنے والے کو اپنی طرف کھینچتی ہے کہ کہیں کوئی جانے نہ پائے۔ اسی طرح اس دنیا کی رنگینیاں بھی انسان کو اپنی طرف کھینچے رکھنا چاہتی ہیں۔ اور اس سب کے بیچ ایک سنسان اور غیر آباد سی جگہ نظر آتی ہے جو کہ سیدھا راستہ ہوتا ہے۔ اس راستے کے مسافروں کو بڑی محنت کرنا پڑتی ہے، اپنا نفس اپنی خواہشات یہ دنیا داری سب مارنا پڑتا ہے۔ ایسے لوگ دوسروں سے بلکل بے نیاز ہو جاتے ہیں۔ انھیں یہ بات پریشان نہیں کرتی کہ فلاں بندہ یہ کر رہا ہے تو میں کیوں نہیں، فلاں کے پاس یہ چیز ہے تو میرے پاس کیوں نہیں۔ حسد، جلن، خواہشات کا منہ بند کرنا پڑتا ہے۔ یہی لوگ ہوتے ہیں جو اپنی راہوں اور اپنی منزل سے حقیقی معنوں میں آگاہ ہوتے ہیں اور اس کے لیئے کوششیں کرتے ہیں۔ انھیں یہ لگن نہیں رہتی کہ اس دنیا کو ہم کیسے بہتر سے بہترین طریقے اور آسائشوں کے ساتھ گزار سکتے ہیں۔ وہ تو اس راستے ﴿دنیا﴾ کو راستہ ہی جانتے ہیں اور نظر صرف اور صرف منزل پر ہوتی ہے۔ ۔ ۔

لیکن لوگ اپنی ذات، اپنے مقصد کے ساتھ ساتھ اس راستے کو بھی بھلا دیتے ہیں اور جس طرف کو ان کے قدم اٹھتے ہیں اسی طرف کوہی ہو جاتے ہیں، یہ جانے کے بغیر کے یہ راستہ کس منزل کی طرف لے جا رہا ہے۔ شاید ہم سب کسی خضر کے منتظر ہیں جو ہمیں راہ بتلائے، ہمارا ہاتھ پکڑ کر ہمیں کسی راہ پہ چلائے۔ حلانکہ اس امت کے لیئے توکامل احکامات آج سے چودہ سو سال پہلے نازل ہو چکے ہیں، ہمیں راستہ دکھا دیا گیا ہے، اب ضرورت ہے تو اپنی اپنی بصارت کو جگانے کی، خود کو پہچاننے کی۔ راستہ تلاشنے کی نہیں، کیونکہ وہ تو ہمارے سامنے ہے، ضرورت ہے صرف اس پر چلنے کی، ضرورت ہے تو اپنا آپ پہچاننے کی۔

فرش پر کھنچی اُس ایک لائن نے مجھے یہ ایک بات سمجھا دی، اور آپ کو؟


*****


مکمل تحریر اور تبصرے >>

لاہور، لاہور اے

لاہور، لاہور اے

اشتہار: کہتے ہیں ”جن نے لاہور نئیں تکیا او جمیا ای نئی،“ اور ”لاہور، لاہور اے،“ اور ”زندہ دلانِ لاہور،“ اور اور بہت کچھ۔ ۔ آخر ایسا بھی کیا ہے لاہور میں۔ ۔ ۔۔ کیا وہاں انسانوں کی کوئی ’وکھری‘ نسل بستی ہے یا وہاں زندگی نے ہی اتنے رنگ بکھیر رکھے ہیں ان رنگوں کی چکاچوند میں لوگ اتنے کھو جاتے ہیں کہ لاہور کو ہر روز کسی نئے خطاب سے نوازا جاتا ہے۔
یہ جاننے کے لیے آئیے میرے ساتھ لاہور کی سیر کیجیئے۔

٭٭٭

السلام علیکم ساتھیو! آپ سب کو جشنِ آزادی بہت بہت مبارک ہو۔ اور ہم اپنے اس سفر کا آغاز اس دعا کے ساتھ کرتے ہیں کہ اللہ پاک ہماری اس سرزمین کو اندرونی اور بیرونی قوتوں کے شر سے نجات دلائے اور اپنی حفظ و امان میں رکھے۔ آمین۔
بادشاہی مسجد کی اس پر وقار عمارت میں جشن آزادی کے دن نماز کا اپنا ہی ایک لطف ہے۔ یقیناً ایسا کرنے سے آپ کی آزادی کے جشن کا لطف دوبالا ہو گیا ہو گا۔ اب ہم یہاں قریب میں واقعہ علامہ اقبال کے مقبرے پر فاتحہ خوانی کریں گے۔ اور اس بیچ میں آپ کو لاہور کی تاریخ سے کچھ متعارف کروا دوں۔
لاہور؛ جو آج کے پاکستان کا ایک اہم شہر ہے، کی تاریخ صدیوں پرانی ہے۔ لاہور جس کا شمار پاکستان کے قدیم شہروں میں ہوتا ہے جغرافیائی لحاظ سے 19،00،22 طول بلد اور 31،00،50 عرض بلد پر واقع ہے تہذیبی، تمدنی اور ثقافتی لحاظ سے ہمیشہ مرکزی حیثیت حاصل رہی ہے۔ اس کی طویل تاریخ ماضی کے سحر میں گُم ہے اور اس کی ابتدائی تاریخ کے بارے میں صرف اور صرف روایات اور قیاس ملتے ہیں مگر عام طور پر یہ کہا جاتا ہے کہ راجہ رام چندر جی ( 1200ق م ۔ 800ق م ) کے دو بیٹے تھے ایک کا نام “ قصوہ “ تھا جس نے قصور کی بنیاد رکھی اور دوسرے کا نام “ لوہ “ تھا جس نے لاہور بسایا۔ شروع مین اس شہر کا نام “ لہور “ تھا جو آہستہ آہستہ لاہور بن گیا۔ اس تاریخی روایت سے اس کا قدیم ہونا ازخود واضح ہو جاتا ہے۔
لاہور کی شان و شوکت کو مغلوں نے اپنے حسن ذوق سے چار چاند لگا دیئے، کہ یہ لوگ آرکیٹیکچر کے بڑے ماہر اور نہایت باذوق تھے۔ بادشاہی مسجد اس کی سب سے بڑی مثال ہے۔ پھر انگریزوں کے تسلط کے بعد مغلوں کے فنِ آرکیٹیکٹ میں وکٹورین آمیزش بھی شامل ہو گئی، اور اس دور میں تعمیر کی جانے والی عظیم الشان عمارتوں میں لاہور ہائی کورٹ اور قلعہ کے نزدیک واقعہ عالمگیری گیٹ شامل ہیں۔ لاہور کی خوبصورتی اور شان و شوکت نے اپنا سحر صرف چند مغلوں یا فارسیوں پر ہی نہیں چلایا بلکہ انگریز ادباء بھی اس سحر سے خود کو بچا نہ سکے۔ انگریزی کلاسیکس کا مانا ہوا شاعر ٰجان ملٹنٰ جس نے تاریخ کی مشہور ترین ایپک Paradise Lost لکھی، اس نے لاہور کی شان میں "Agra and Lahore, the Seat of Great Mughal" بھی لکھی ڈالی۔
اگر تحریک آزادی میں لاہور کا کردار دیکھیں تو ہم اسے سراہے بغیر نہ رہ پائیں گے۔ گانگریس پارٹی کے اجلاس کا مرکز یہی شہر تھا۔ اور اس شہر کی جیل نے بھی کئی باب بند کیئے اور کئی بابوں کا آغاز بھی کیا۔ سردار بھگت سنگھ اپنے ساتھیوں کے ساتھ لاہور کی جیل میں قید رہے جہاں انھوں نے ساٹھ سے بھی زیادہ دن تک کھانا پینا ترک رکھا، اور اسی شہر میں بھگت سنگھ کا باب بند کر دیا گیا، انہیں پھانسی دے دی گئی۔ پاکستان مسلم لیگ کا وہ جلسہ جس میں قائد نے دو قومی نظریہ پیش کیا اور ایک آزاد ریاست کی بنیاد رکھی، اسی شہر میں وقوع پذیر ہوا۔ اس شہر میں بے پناہ مقامات اور چیزیں ہیں جو دیکھنے سے تعلق رکھتی ہیں۔ جن میں سے پہلی تو یہ لیں
علامہ اقبال کا مقبرہ، جو بادشاہی مسجد سے جنوب مشرق کی طرف حضوری باغ میں مقیم ہے۔ یہ جگہ محب وطن اور ادب سے شغف رکھنے والےلوگوں کے لیئے ایک نہایت ہی پرکشش مقام ہے۔ کہتے ہیں لوگ چلے جاتے ہیں لیکن ان کا کام رہ جاتا ہے، اور کبھی کبھی یہ کام اتنے عظیم ہوتے ہیں کہ ایسی عظیم الشان عمارتیں اس عظمت کی گواہ بن جاتی ہیں۔ علامہ اقبال کا مقبرہ بھی ایک ایسی ہی عمارت کی مثال ہے۔ یہ عمارت افغانستان کی طرف سے تحفے میں دیئے گئے مہنگے ترین سرخ پتھر سے تعمیر گی گئی۔ حیدر آباد کے ایک مشہور و معروف آرکیٹیک نے اس کا آرکیٹیکچر مغلیہ رواج کے خلاف جا کر افغانی طرز پر رکھا۔
چند سیاسی اختلافات کی بناء پر اس مقبرے کو مکمل ہونے میں 13 سال کا عرصہ لگا۔
علامہ اقبال کے مقبرے سے اب ہم سیدھے چلیں گے اس بلند و بالا عمارت کی طرف۔ اس عمارت کے غرور و تکبر کا کیا کہیئے کہ اسے دیکھنے میں ہی ہماری گردنیں فخر و غرور سے تن جاتی ہیں، اور دل خود بخود ان لوگوں کے لیئے جنہوں نے اس عمارت کو ایسے تن کر کھڑے ہونے کی وجہ دی، کے سامنے جھک کر ان کی دلیری اور عزم کو سراہتا ہے۔
جی آپ کے سامنے ہے یہ بلند و بالا، پاکستانیوں کے عزائم کی بلندیوں کو ظاہر کرتی عمارت، مینارِ پاکستان۔ اقبال پارک میں موجود یہ 60میٹر بلند عمارت ہمیں 1940 کی ایک عظیم قرارداد کی یاد دلاتی ہے۔
مغلیہ دور میں بنی اس عمارت کی بالائی منزل پر پہنچ کر اس وقت طلوعِ آفتاب کا نظارہ زندگی کے یادگار لمحوں میں سے ایک ہو گا۔
اب اسی مینار کے دامن میں بیٹھ کر آپ کو اندرونِ لاہور کا نہایت ہی اہم پہلو دکھا دوں۔
کہتے ہیں ناشتہ دن کا سب سے اہم کھانا ہوتا ہے اور اچھا ناشتہ ایک اچھا دن بناتا ہے۔ تو آپ کے اس دن کو بہترین بنانے کے لیئے ہمارے پاس آپ کے لیئے بہترین چیز ہے اور وہ ہے لاہور کا یہ روائتی ناشتہ۔ روائتی ایسے کہ سلائس پر جیم اور بٹر لگا کر ناشتہ کرنے والے کیا جانیں کے اصل ناشتہ ہوتا کیا ہے۔
اگر لاہور میں ناشتے کی مخصوص چیزوں کی بات کریں تو اس میں حلوہ پوری، شاہی پٹھورے، نان چنے، بونگ پائے اور سری پائے نان کے ساتھ، نہاری اور ایک گلاس لسی۔ یہ لاہوریوں کا ہی نہیں بلکہ لاہوری سیاحوں کا بھی دلعزیز ناشتہ ہے، جو اب آپ کی خدمت میں حاضر ہے۔ایسے ناشتے کے بعد تو دل کرتا ہے کہ لمبی تان کر سو جاوٴ لیکن ابھی ہمیں اپنے سفر کو آگے بڑھانا ہے اور اس کے ساتھ ہی چلتے ہیں اپنی اگلی منزل کی جانب۔
اس وقت سورج نے تمام شہر کو اپنے نور کی گرفت میں لے لیا ہے۔ اب یہاں سے ہم پیدل چل کر واپس بادشاہی مسجد کی طرف جائیں گے اور اس کے کونے کونے میں کندہ تاریخ کو کھوجنے کی کوشش کریں گے۔ جنوبی ایشیاء کی یہ دوسری بڑی مسجد ہے جو اپنے بازو پھیلائے لاکھوں کروڑوں، ملکی اور غیر ملکی سیاحوں کو اپنی آغوش میں لے لیتی ہے اور ان کو تاریخ کے ایسے ایسے باب دکھاتی ہے جن کی مثال ملنا نہایت مشکل ہو۔ اس مسجد کے دامن مین بیک وقت ایک لاکھ سے زائد مسلمان نماز ادا کر سکتے ہیں۔ مغل حکومت کے چھٹے بادشاہ اورنگزیب نے اس مسجد کی تعمیر کا حکم صادر کیا اور یہ مسجد 1671 سے 1673 کے مختصر ترین عرصے میں معرضِ وجود میں آئی۔ مغلیہ حکومت کے سپوت کے دور میں بنائی گئی اس مسجد کا خوبصورت آرکیٹیکچر مغلوں کے حسنِ ذوق کی ایک اور سند ہے۔ اس کی تعمیر سرخ پتھر سے کی گئی اور اس کے چار میناروں کی لمبائی 4.2 میٹر ہے جو مقابلے میں تاج محل کے میناروں سے بھی زیادہ ہے۔
قدیم تاریخی آثار اور پُرشکوہ عمارتوں کی اپنی ایک سحر انگیز داستان ہے جو اس زمانے کے ماہرین تعمیر نے اپنے فن اور صلاحیتوں سے زندہ رکھی ہے۔ قدیم عمارتوں سے اس زمانے کی تہذیب کے جاہ و جلال حکمرانی کے انداز شہنشاہیت کے دبدبے اور طاقت وجبروت کا اندازہ ہوتا ہے۔
شاہی قلعہ لاہور جو مغلوں کے فنِ تعمیر کا ایک بے نظیر شاہکار ہے جو انہوں نے اپنے رہائشی مقاصد کے لیے تعمیر کروایا مگر ساتھ ساتھ فوجی مقاصد کو بھی مدِنظر رکھا گیا۔ اس کی باقاعدہ بنیاد 1566ء میں مغل بادشاہ جلال الدین اکبر نے رکھی۔ اس کی لمبائی 466 میٹر اور چوڑائی 370 میٹر ہے۔ اس کی شکل تقریباً مستطیل ہے۔ دیواریں سرخ پختہ اینٹوں سے بنی ہوئی ہیں جن کی چنائی مٹی گارے سے کی گئی ہے۔
شاہی قلعہ کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا تھا۔ ایک انتظامی استعمال کے لیئے اور ایک نجی استعمال کے لیئے۔ انتظامیہ کے زیرِ استعمال حصے میں داخلی حصہ، باغات، دولت خانہ خاص و عام ﴿اکبری محل﴾ اور دیوانِ عام تھے۔ موتی مسجد بھی جو شاہی قلعہ میں تعمیر کی گئی، عام استعمال میں آتی تھی۔ اس حصے کی رسائی عالمگیری دروازے سے گزر کر ہوتی تھی۔ جو حصہ ذاتی استعمال میں تھا وہ قلعہ کے جنوبی حصہ میں واقعہ ہے اور جس تک رسائی ٰہاتھی دروازےٰ سے گزر کر ہوتی تھی۔ اس حصہ میں شیش محل ﴿شیشوں کا محل﴾، نولکھا پیویلین، مکتب خانہ،
خلوت خانہ، احاطہ جہانگیری، خوابگاہیں، عجائب گھر، کچھ حویلیاں، شاہی حمام اور چند باغات شامل ہیں۔
لاہور قلعہ میں موجود ایک ایک جگہ دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے لیکن شیش محل کی تو بات ہی اور ہے۔ وہاں دیواروں پر بہت سے چھوٹے چھوٹے لیکن لا تعداد شیشے نصب ہیں۔ جن کے بارے میں مشہور ہے کہ ہر شیشہ آپ کا پورا عکس دکھائے گا۔ اور رات کے وقت اس جگہ کو روشن کرنے لیئے فقط ایک موم بتی ہی کافی ہے۔ لاہور کے قلعہ کی بھول بھلیاں کسی کو بھی اپنے سحر سے جلد آزارد ہونے نہیں دیتیں لیکن ہمیں ابھی اپنا سفر جاری رکھنا ہے۔ اس لیئے آئیں اب آگے بڑھیں۔
یہ سارا لاہور جو اب تک ہم دیکھ چکے ہیں یہ ساری جگہیں اندرون شہر میں آتی ہیں۔ ادرون مطلب اندر۔ تو سوال یہ ہے کہ یہ سب کس کے اندر ہے۔ تو جناب میں آپ لوگوں کو بتاتی چلوں کہ لاہور کو "walled city" بھی کہا جاتا ہے کیونکہ اس تاریخی، تہذیبی اور ثقافتی شہر کو مختلف ادوار میں کئی خطرے لاحق ہوئے جن میں اس کی ثقافت اور تاریخ کھوجانے کا ڈر تھا۔ دفاعی مقاصد کو زیرِ نظر رکھتے ہوئے اس شہر کے لیئے ١۳ محافظ دروازے کھڑے کر دیئے گئے۔ جو اس شہر کے ساتھ ساتھ اس کے تہزیب و تمدن کے بھی محافظ ہیں۔
ان دروازوں میں سب سے پہلے ہم بات کرتے ہیں
1. روشنی گیٹ کی، یہ شاہی محل کے علاقے میں واقعہ ہے جسے شاہی محلہ بھی کہا جاتا ہے۔ شاہی مسجد اور شاہی محلہ کو یہ نام شاہی قلعہ کے بعد دیا گیا۔ اس دروازے کے گرد کھانے پینے کی کئی دکانیں ہیں، آپ کہہ سکتے ہیں اس دروازے پر ایک منی فوڈ سٹریٹ قائم ہے۔
2. بھاٹی گیٹ کو یہ نام راجپوت قبیلے کے بھٹیوں کے نام پر دیا گیا۔ یہاں کا مشہور ترین بازات حکیم والی بازار ہے اور یہ نام یہاں پر موجود حکیموں کی بہت سی دکانوں کی مناسبت سے دیا گیا۔ علامہ محمد اقبال کی رہائش بھی بھٹی گیٹ پر ہی تھی۔ یہاں کے لوگ بھی کھانے پینے کے نہایت شوقین ہیں اور یہاں کے لوگوں کا من پسند کھیل ٰکُشتیٰ ہے۔
3. موری گیٹ باقی تمام دروازوں سے نسبتاً چھوٹا ہے لیکن یہاں مچھلی کی ایک بہت بڑی مارکیٹ ہے، اور لاہور کے بہترین فرنیچر اور فرنیچر پالش کی دکانیں بھی یہاں پائی جاتی ہیں۔
4. لاہوری گیٹ بھی ان دروازوں میں سے ایک ہے۔ لاہور کی سب سے بڑی آپٹیکل مارکیٹ اسی دروازے کے نزدیک ہے۔ قطب الدین ایبک کا مقبرہ بھی اسی دروازے پر ہے جو انارکلی بازار کے ساتھ ملحقہ ہے۔
5. شاہ عالم گیٹ کا نام شاہ عالم بہادر شاہ ظفر کے نام پر رکھا گیا۔ یہاں لاہور کی سب سے بڑی الیکٹرانکس کی مارکیٹ موجود ہے۔ اس کے علاوہ رنگ محل اور سوا بازار جیسے بڑے بازار بھی اسی دروازے میں واقعہ ہیں۔ رنگ محل شادی کے لہنگوں اور دیگر ملبوسات کے لیئے بہت زیادہ مشور ہے اور سوا بازار سونے اور زیورات کی سب سے بڑی مارکیٹ ہے۔ اس کے علاوہ سنہری مسجد اور لال مسجد بھی اس دروازے کی اہمیت کو چار چاند لگا دیتی ہیں۔
6. موچی دروازے کا نام موتی لفظ کے بگاڑ کے بعد رکھا گیا۔ پنڈت موتی رام کے نام سے جانے جانا والا یہ دروازہ مسلمانوں کے تسلط میں موتی سے موچی بن گیا۔ اس دروازے کے بازاروں پھلوں اور آتش بازی کی مارکیٹ مشہور ہیں۔
7. اکبری گیٹ کو یہ نام جلال الدین محمد اکبر کے نام پر دیا گیا۔ اسی گیٹ پر ٰاکبری منڈیٰ ہے جہاں سب سے بڑے پیمانے پر ہر قسم کا اناج فروخت کیا جاتا ہے۔
8. دہلی دروازہ اسے اس لیئے کہا جاتا ہے کیونکہ یہ دروازہ دہلی سے لاہور آنے والی سڑک پر بنایا گیا۔ یہاں کپڑوں کی ایک بہت بڑی مارکیٹ ہے۔
9. یکی گیٹ جو کہ پہلے زاکی گیٹ کے نام سے جانا جاتا تھا۔ یہ نام اسے ایک صوفی کے نام پر دیا گیا جو تاتاریوں کے خلاف لڑتے ہوئے شہید ہوئے تھے جب انہوں نے لاہور پر حملہ کیا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ دورانِ جنگ ان کا سر تن سے جدا کر دیا گیا تھا لیکن آپ ﴿صوفی﴾ کا جسم سر قلم ہونے کے چند لمحوں بعد تک بھی لڑتا رہا۔ ان کا ایک مزار اس جگہ قائم ہے جہاں ان کا سر گرا تھا اور دوسرا وہاں جہاں ان کا دھڑ گرا۔ یکی گیٹ کے گرد بہت سی حویلیاں اور مندر بھی قائم ہیں۔
10. شیراں والا گیٹ پہلے خضری گیٹ کے نام سے بھی جانا جاتا تھا۔ یہ نام اسے ایک صوفی بزرگ خض الیاس کے نام پر ملا۔ اس کے بعد رنجیت سنگھ نے اس جگہ پر دو شیروں کو پنجرے میں قید کر کے رکھا جس کی وجہ سے اس کا نام شیراں والا گیٹ پڑ گیا۔
11. کشمیری گیٹ کا نام اس دروازے کا رخ کشمیر کی طرف ہونے کی وجہ سے رکھا گیا۔ یہاں بچوں کے جوتوں کی ایک بڑی مارکیٹ اور لڑکیوں کے لیئے ایک نہایت ہی خوبصورت کالج بنایا گیا ہے، جو کہ شاہوں کی حویلیوں میں سے ایک حویلی میں ہے۔
12. مستی گیٹ کا نام مسجدی گیٹ کے بگاڑ سے پڑا۔ اس کے گرد رہنے والے لوگ بھی کھانے پینے کے کافی شوقین ہیں۔
13. ٹیکسالی گیٹ کا نام لفظ ٹیکسال سے پڑا۔ اس دروازے پر ایک مشہور جوتوں کا بازار ٰشیخوپوریاں بازارٰ واقعہ ہے۔ یہاں کے لوگ بھی کھانے پینے کے بہت شوقین ہیں۔ اور مشہور پھجے کے سری پائےٰ، اور ٰتاج محلٰ والوں کی مٹھائی کی دکان بھی اسی دروازے پر ہے۔
یہ تو ہم نے آپ کو دکھا دیئے لاہور کے وہ ١۳ محافظ جو ہمہ وقت اس خوبصورت شہر کی حفاظت میں لگے رہتے ہیں اور آج کل کے غافل انسانوں کا کام بھی خود ہی انجام دے رہے ہیں۔ اب یہاں سے نکل کر چلتے ہیں اندرونِ شہر ہی کی ایک اہم ترین جگہ پر۔ اندرون لاہور کو خداحافظ کہنے سے پہلے ہم یہاں پر موجود دربار اور مقبروں پر حاضری دیں گے اور فاتحہ خوانی کریں گے۔
تو جی اس میں سب سے پہلے چلے چلتے ہیں حضرت سید ابوالحسن علی بن عثمان الجلابی الهجویری الغزنوی کے دربار پر جسے ٰداتا دربارٰ کہا جاتا ہے۔ آپ کا شجرہ نصب افغانیوں سے ملتا ہے۔ حضرت نہ صرف ایک بلند پایہ صوفی بلکہ ادیب اور سکالر بھی تھے۔ ان کی کتاب ٰکشف المعجوبٰ تاریخِ ادب میں اپنی مثال آپ ہے۔ یہ کتاب فارسی میں لکھی گئی تھی جس کا بعد میں کئی زبانوں میں ترجمہ کیا گیا۔
ان کے علاوہ یہاں اور بہت سے صوفی لوگوں کے مقبرے ہیں جن کا ہر سال بڑے جوش و خروش سے عرس منایا جاتا ہے جن میں مادھو لال حسین کا عرس قابلِ ستائش ہے۔ شاہ صاحب بھی ایک ادیب تھے اور قافیاں لکھا کرتے تھے۔ ان کی یاد میں ہر سال ایک میلا لگتا ہے جسے ٰمیلا چراغاںٰ کہا جاتا ہے۔
صوفیوں کے مقبرے کے علاوہ اس شہر میں کافی تاریخی ہستیوں کے مقبرہ جات بھی ہیں جس میں جہانگیر کا مقبرہ سر فہرست ہے، جسے جہانگیر کی ملکہ نور جہاں اور بیٹے شاہ جہاں نے تعمیر کروایا۔ ملکہ نور جہاں کا مقبرہ، یہ وہ ملکہ ہیں جن کے نام کو مغلیہ دور میں سکوں پر چھپنے کا شرف حاصل ہوا۔
شاہدرہ روڈ پر جہانگیر کے مقبرے کے مقابل قطب الدین ایبک کا مقبرہ ہے، جن کی وفات پولو کھیلتے ہوئے گھوڑے سے گرنے کی وجہ سے ہوئی تھی۔
آصف خان جو شاہ جہاں کی ملکہ ارجمند بانو کے والد تھے کا مقبرہ بھی اس تاریخ کے محافظ شہر لاہور میں ہی ہے۔
ہممم میرا خیال ہے اب اندرون لاہور کو خدا حافظ کہہ ہی دیتے ہیں ورنہ اس کی تاریخ اور ان پرانی عمارتوں کا سحر تو اپنے شکنجے سے کبھی نہیں چھوڑتا۔ لیکن پھر بھی زندگی اور انسان دونوں ہی کبھی کہیں نہیں رکتے۔ تو اب چلتے ہیں اپنی اگلی منزل کی جانب۔ دوپہر کا وقت ہے اور آپ سب لاہور کے کھانوں سے تو بخوبی آگاہ ہیں، بھوک تو لگ ہی رہی ہو گی۔ لیکن کیا ہے کہ کھانے سے پہلے آپ کو ذرا صاف ستھرا ہونا پڑے گا۔ کھانا نہا دھو کر ہی ملے گا۔ اب اگر سوال یہ ہے کہ نہائیں کہاں تو خواتین کو تو ضرورت نہیں البتہ مرد حضرات کے لیئے اس سے بہتر جگہ اور کیا ہو سکتی ہے۔
ساری دنیا کے سویمنگ پولز ایک طرف اور لاہوریوں کا یہ پول ایک طرف۔ یہ نہر لاہور میں ایک نعمت ہے اللہ پاک کی طرف سے۔ آپ سب جانتے تو ہیں کہ آج کل کیا حالات ہیں پاکستان میں گرمی اور بجلی کے۔ ایسے میں لاہوریوں کا یہ سدا بہار اے سی ہی ان کو سکون کی چند گھڑیاں فراہم کرتا ہے۔ اس نہر میں ذرا دو چار ڈبکیاں لگا لیں آپ اس کے بات آپ کو یہاں کے کسی سایہ دار، سر سبز باغ میں بٹھا کر کھانا کھلاتی ہوں اور ساتھ ساتھ مزید لاہوری معلومات بھی بہم پہنچاتی ہوں۔
لیں جی نہا دھو کے اب ہم یہاں سے سیدھا چلتے ہیں شالامار باغ۔ وہاں بیٹھ کر ہم کھانا بھی کھائیں گے اور میں آپ کو لاہور کے مزید پارکس کے بارے میں بھی بتاوٴں گی۔ ویسے مجھے ریس کورس زیادہ پسند ہے۔ لیکن کیونکہ شالامار باغ کی تاریخی حیثیت زیادہ ہے اس لیئے یہی زیادہ مناسب ہے۔ ریس کورس نہ جانے کی ایک اور وجہ بھی ہے جس کا تذکرہ میں تھوڑی دیر میں کروں گی۔ اور کھانا کھانے اور تھوڑا آرام کرنے کے لیئے یہ شہنشاہی جھروکوں والی جگہ کیسی ہے۔ ۔ ۔۔
اور اب ایسی شاہی اور پرسکون جگہ پر بیٹھ کر خود کو شہزادے اور شہزادیاں سمجھ کر اب لاہوری شاہی کھانا آپ کی خدمت میں حاضر ہے۔
کھانا کھانے کے لیئے لاہور میں بے تحاشا جگہیں ہیں۔ ہر گلی نہیں تو ہر علاقے کی ضرور کوئی نہ کوئی خاصیت ہے۔ ہر کلاس کے لوگوں کے لیئے جگہیں الگ الگ لیکن ذائقہ ایک سے بڑھ کر ایک۔ کبھی کبھی کسی ریڑھی والے سے لے کر کھائی ہوئی بریانی اتنی لذیذ ہوتی ہے کہ اس کا مقابلہ کسی بڑے ہوٹل کی بریانی بھی نہ کر پائے۔
اب بات یہ کہ اتنے سارے ہوٹلز اور ریستوران چھوڑ کر میں آپ کو ایک باغ میں بٹھا کر کھانا کھلا رہی ہوں، وہ کیوں۔ ۔ ۔؟ تو جناب وجہ یہ ہے کہ ایک ہوٹل میں بیٹھ کر تو آپ کو سب وہاں کا ہی کھانا پڑے گا نا۔ یہاں اس باغ میں ایک قدرتی ماحول اور دوسرا اتنا مختلف مینیو۔ تو یہ لیں جناب دوپہر کے کھانے میں ہمارے پاس ہے بریانی، چکن کڑاہی، مٹن کڑاہی، حلیم، بُندو خان کے مشہور پراٹھا کباب، اور جو لوگ ایسا کھانا پسند نہ کریں ان کے لیئے چائینیز کھانا اور برگرز وغیرہ بھی حاضر ہیں۔ اب آپ تصور کریں کہ آپ مغلوں کے اس خوبصورت کے شاہکار باغ، شالا مار باغ میں راجاوٴں مہاراجاوٴں اور خواتین شہزادیوں کی طرح شان سے اپنا لنچ نوش فرما رہی ہیں۔ ایسا ہیوی کھانا کھانے کے بعد اگر آپ میں کوئی ہلکی پھلکی واک کرنا چاہے تو بھی کر لے اور جو ذرا سستانا چاہے وہ بھی کر لے۔
اور اس دوران میں آپ کو لاہور کے باقی پارکوں اور باغوں سے آگاہ کرتی ہوں۔ ویسے تو چھوٹے چھوٹے ہوٹلوں کی طرح لاہور میں پارک بھی بے شمار ہیں۔ ہر علاقے کا اپنا ایک چھوٹا صحیح لیکن پارک ضرور ہوتا ہے۔ اور اگر مشہور پارکوں کی بات کریں تو ان میں کئی قسمیں آ جاتی ہیں۔ آپ حیران ہو رہے ہوں گے کہ پارکوں کی قسمیں۔ ۔ ۔؟ تو میں آپ کو بتاوٴں کہ لاہور کے ہر نام ور اور بڑے پارک میں آپ اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ جانے کی غلطی نہیں کر سکتے۔ اگر آپ اپنی فیملی کے ساتھ کسی پارک کی تفریح کے لیئے جانا چاہتے ہیں تو اس کے لیئے مناسب پارکس نیشنل پارک، گلشن اقبال پارک، منٹو پارک، شالا مار باغ، حضوری باغ، سوزو واٹر پارک اور جلو پارک قدرے بہتر جگہیں ہیں۔
لیکن نواز شریف پارک، جناح پارک ﴿لارنس گارڈن﴾ اور ریس کورس جانے سے پہلے فیملی کو گھر ڈراپ کر آئیں۔ ۔۔ کیوں؟
وجہ تو بس میں یہی بتا سکتی ہوں کہ یہ پارک بہت بڑے ہیں، سر سبز ہیں، یہاں کافی زمانہ آتا ہے اور زمانہ بڑا خراب ہے۔
نہانے دھونے، کھانے پینے، اور باغوں کی تفریح کے بعد اب کیوں نہ آپ سب کا طبی معائنہ بھی کروایا جائے۔ تو اس کے لیئے اگر ہسپتالوں کی بات کریں تو ہسپتالوں کی بھی بھرمار ہے لاہور میں۔ سرکاری اور غیر سرکاری ہر طرح کے پسپتال اور کلینک یہاں جگہ جگہ پائے جاتے ہیں جن میں سے چند چیدہ چیدہ ہسپتالوں میں میو، سروس، گنگا رام، جنرل، جناح، شیخ زید، شوکت خانم، فاطمہ میموریل، پنجاب کارڈیالوجی اور شالامار ہسپتال شامل ہیں۔ ویسے تو لاہور کا مینٹل ہاسپٹل بھی قابلِ تعریف ہے۔ تو اگر آپ کو کسی کی بھی ذہنی حالت پر شبہ ہو تو بلا جھجک آپ اسے اس ہسپتال میں لے کر جا سکتے ہیں۔
ویسے تو تفریح کے وقت پڑھنے پڑھانے کی باتیں اچھی نہیں لگتیں لیکن کوئی ٹورسٹ تعلیم لیئے لاہور کی خدمات جانے بغیر چلا جائے تو یہ تو بہت شرمندگی بات ہو گی۔ لاہور میں اداروں کی بات کرتے ہی جس پہلے انسٹیٹیوٹ کا نام آتا ہے وہ ہے پنجاب یونیورسٹی، یونیورسٹی آف انجینئرنگ اور ٹیکنالوجی، گورنمنٹ کالج جو اب یونیورسٹی بن چکا ہے، فورمین کرسچیئن کالج، یونیورسٹی آف لاہور،
لاہور یونیورسٹی آف مینیجمنٹ سائینسز ﴿LUMS﴾ ایچیسن کالج، نیشنل کالج آف آرٹس، کنیئرڈ کالج، لاہور کالج اور میڈیکل کالجز میں کنگ ایڈوڑ اور فاطمہ جناح میڈیکل کالج قابلِ ذکر ہیں۔ ان کے علاوہ بے شمار سرکاری اور غیر سرکاری ادراے تعلیم کے فروغ میں اپنا اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔
اب یہاں سے ہم چلیں گے واہگہ بارڈر دیکھنے۔ ویسے وہاں پر تو غروبِ آفتاب کے وقت روز ہی ایک تقریب کا سماں ہوتا ہے لیکن جشنِ آزادی کے دن تو وہاں بھی خوب رونق ہو گی۔ واہگہ بارڈر جو کہ ہندوستان اور پاکستان کے بیچ ایک حد ہے، پر جشنِ آزادی کے روز فلیگ لووٴرنگ سیریمنی یعنی پرچم اتارنے کی تقریب ہو گی۔ یہاں روز ہی پرچم کو اتارنےکی تقریب دونوں طرف بیک وقت ہی شروع ہوتی ہے۔ اپنے اپنے گیٹ کے اس بار کھڑے سپاہی غرور، تکبر اور جوش کا ایک پیکر ہوتے ہیں۔ پریڈ کرتے ہوئے ان کے قدموں سے آنے والی آواز جیسے مخالف کو ایک تنبیہہ ہوتی ہے کہ ہم اپنےملک کے دفاع اور اس کی عزت اور سر بلندی کا حوصلہ رکھتے ہیں۔ دیکھنے والوں کے لیئے منظر یقیناً کسی فُل ٹائم اینٹرٹینمنٹ سے کم نہیں۔
آئیں اب آپ کو لاہور کا ایک اور اہم ترین پہلو دکھانے لے چلوں۔ خواتین میں تو وہ پسندیدہ ہے ہی لیکن مرد حضرات بھی کبھی پیچھے نہیں رہے۔ تو آئیں اب چلتے ہیں کچھ شاپنگ کرنے۔ جو مرد حضرات شاپنگ پسند نہیں کرتے وہ اتنی دیر میں قذافی سٹیڈیم یا الحمرا آرٹ ہال سے ہو آئیں۔ شاید وہاں ان کا وقت قدرے بہتر گزرے، لیکن اگر وہ شاپنگ کے لیئے بھی آنا چاہیں تو کوئی اعتراض نہیں۔
لاہور میں شاپنگ، ایک بہت ہی سوچ و بچار والا عمل ہے۔ کیونکہ آپ کے پاس اتنے آپشنز ہوتے ہیں کہ سمجھ ہی نہیں آتی کہاں سے شاپنگ کریں۔ سب سے مشہور تو انار کلی بازار ہے جہاں سے آپ ہر طرح کی چیز خرید سکتے ہیں، کیونکہ وہ بازار کافی بڑا ہے اس لیئے اپنے مطلب کی چیز ڈھونڈنے میں ذرا محنت کرنی پڑتی ہے لیکن آخرکار مل ہی جاتی ہے۔ اس کے بعد لبرٹی، پیس، صدیق ٹریڈ سنٹرز، ڈیفنس اور گلبرگ کے شاپنگ سنٹرز سے عمدہ چیزیں شاندار قیمتوں پر دستیاب ہوتی ہیں۔ اوریگا خواتین کے کپڑوں کے لیئے بہت ہی بہترین مارکیٹ ہے جہاں ان سِلا کپڑے کی بہتات ہوتی ہے۔ ورائٹی بے شمار لیکن قیمتیں مناسب۔ اس کے علاوہ اچھرہ اور رنگ محل شادی کے لہنگوں اور کپڑوں کے لیئے مشہور ہے۔ شہالمی سے باقی چیزوں کے ساتھ ساتھ آڑٹیفیشل جیولری کی بہت اچھی روائٹی مل جاتی ہے۔ سوا بازار گولڈ کے لیئے، بلال گنج مارکیٹ مشینری، سپیئر پارٹس اور چوری کا مال فروخت کرنے کے لیئے مصری شاہ لوہے کی سب سے بڑی مارکیٹ کے لیئے مشہور ہے۔
چلیں جی اب خریداری کرنے کے بعد سب لباس بدلیں گے، تھوڑا تیار شیار ہو کر اب ہم اپنے سفر کی آخری گزرگاہ سے گزریں گے، جو کہ اپنے نام کی ایک ہی ہے، اور اس کا جانا پہچانا سا نام ٰفوڈ سٹریٹٰ ہے۔
یہاں سے رات کا کھانا کھلا کر آپ کو بس رخصت دے دی جائے گی۔ فوڈ سٹریٹ نہ صرف لاہور بلکہ پورے پاکستان میں کھانے کی سب سے بڑی اور سب سے مشہور ترین سٹریٹ ہے۔ لاہور میں سیر و تفریح کے لیئے اگر آپ کبھی آئیں تو یہاں سے ہوئے بغیر نہ جائیں۔ کھانے کی اس قدر ورائٹی ہے کہ آپ بوکھلا جائیں گے کہ کیا کھائیں اور کیا نہ کھائیں۔
اب دن میں باقی کھانے تو ہم چکھ چکے لیکن لاہوری چرغہ کی کسر ابھی باقی ہے جو کہ لذت میں اپنی مثال آپ ہوتا ہے۔ باقی کھانا زیادہ تر تو چٹ پٹا اور مرچ مصالحے والا ہی ملتا ہے لیکن اب کچھ دکاندار کم نمک مرچ کھانے والوں کا خیال بھی رکھ لیتے ہیں۔ مرچ مصالحے کے بعد یہاں ٹھنڈے میٹھے پکوانوں کا بھی خوب دھیان رکھا جاتا ہے اور اس میں فالودہ مکس قلفہ کی تو کیا ہی بات ہے۔ یہاں سے آپ کا جو دل کرتا ہے کھائیں اور خوب کھائیں، اور یہ کہہ جاتے جاتے یہ کہہ جائیں۔ ۔ ۔ لاہور لاہور ہے۔
اور اس کے ساتھ ہی ہمارا لاہور کا اس سال کا سفر اپنے اختتام کو پہنچتا ہے۔ امید کرتی ہوں آپ سب نے انجوائے کیا ہو گا۔ حلانکہ لاہور کے بارے میں جو بتایا ہے وہ شاید ایک فیصد بھی نہ بنتا ہو، لیکن بس اپنی سی ایک کوشش تھی۔
شکریہ
مکمل تحریر اور تبصرے >>

شمع اور پروانہ

شمع اور پروانہ

شمع پروانے سے۔۔
کیا تکتے ہو؟
تم کو
مجھ میں کیا ہے؟
آگ۔۔ جو جلا دے
تم جلنا چاہتے ہو؟
صرف تمہاری آنچ سے
اس کی وجہ؟
کہوں گا تو تم مانو گی نہیں
تم کہہ کر تو دیکھو؟
میں تم سے محبت کرتا ہوں، اس قدر کہ وصل کے ایک لمحے کے لیے میں اپنی حیات لکھ دوں۔
یہ کیسی محبت ہے؟ تم جانتے ہو میری قربت تمہیں خاک کر ڈالے گی، پھر بھی؟
ہاں پھر بھی۔۔
اس کی وجہ؟
محبت میں وجوہات کب ہوتی ہیں بھلا؟
؟بے وجہ کب کچھ ہوتاہے۔۔
کیا وجہ ہوئی کہ خدا اپنے محبوب کے انتقال سے پہلے ہی اسے اپنے روبرو لے آیا، اپنے قریب۔۔
یہ باتیں میں کیا سمجھوں؟
تمہیں محبت جو نہیں۔۔
شاید تم ٹھیک کہتے ہو، میں تمہارے لیے اپنے دل میں کوئی خاص جذبہ محسوس نہیں کرتی۔
جانتا ہوں، لیکن پھر بھی تم سے التجا ہے کہ میری محبت کو اتنا خراج دو کہ ایک بار تمہیں چُھو سکوں
چاہے اس کے لیے تمہیں اپنی جان گنوانی پڑے؟
ہاں۔۔ چاہے اس کے بدلے میری جان ہی کیوں نہ جائے۔۔

اور پھر پروانہ اپنی شمع کی قربت یہ کہتا ہوا اس جہانِ فانی سے کُوچ کر گیا
اپنی لو میں تو سبھی جلتے ہیں 
شمع کی لو میں  جلا یہ پروانہ

اور شمع۔۔۔

شمع، جس کو پروانے کے لیے کوئی جذبہ محسوس نہ ہوا، وہ پروانے کی اس دیوانگی پر آنسو بہا رہی ہے۔۔ وہ پروانہ جو اب اس مادی دنیا میں نہیں رہا، جو اب کبھی اسے دیکھ بھی نہ پائے گا، اس کے متعلق کچھ جان بھی نہ پائے گا۔۔۔ اس پروانے کے لیے وہ نہیں جانتی کہ کیوں۔۔ کب اور کیسے۔۔۔

لیکن اب ۔۔ وہ پروانے کی محبت میں قطرہ قطرہ جل رہی ہے۔۔ ۔ ۔ پگھل رہی ہے۔۔۔ مر رہی ہے۔ 
*****
 
__________________
مکمل تحریر اور تبصرے >>