Pages

Subscribe:

Tuesday, April 3, 2012

زندگی کیا ہے؟


زندگی کیا ہے؟



 
زندگی کیا ہے؟

اسے بھلا کوئی کب سمجھا ہے۔۔
اور موت۔ ۔ ۔؟
موت تو بر حق ہے۔۔
بر حق کیا ہوتا ہے؟
وہ جسے ٹالا نہ جا سکے۔۔
تو اٹل موت کا آنا ہے؟
ہر نفس کو یہ ذائقہ چکھنا ہے۔۔
تو پھر یہ ڈر کیسا ہے؟
انساں غفلت میں کھویا ہے۔۔
موت تو جدائی ہے؟
اسے کب نارسائی ہے۔۔

اپنوں سے جدائی کب برداشت ہوتی ہے؟

اس کے لیے صبر کی سدا ہوتی ہے۔۔
صبر کیسے پر حاصل ہو؟
جب انا للہ و انا الیہ راجعون پہ یقین کامل ہو۔۔
یقین تو ہے پر۔۔۔؟
پر تیاری نہیں۔۔
زندگی کے کم جھمیلے ہیں؟
جھوٹے سارے میلے ہیں۔۔
یہ رعنائیاں پھر بھی پیاری ہیں؟
انہی سے پاک ہونا تیاری ہے
کیا یہ آسان ہے؟
یہ تو تیرا امتحان ہے۔۔
امتحان تو مشکل لگتا ہے؟
خُدا آسانی کرتا ہے۔۔

روکے مجھے بہت سے ریلے ہیں؟

یہ تو زندگی کے جھمیلے ہیں۔۔
اور زندگی کیا ہے۔۔؟
اسے کوئی کب سمجھا ہے۔۔

***







مکمل تحریر اور تبصرے >>

Sunday, April 1, 2012

کچھ دن ہوتے ہیں خاص


کچھ دن ہوتے ہیں خاص


 

کچھ دن ہوتے ہیں خاص لیکن کچھ دن اللہ پاک کے کرم و عنایات سے خاص بن جاتے ہیں۔۔ جیسے آج کا دن میرے لیے۔۔
لیکن آج تو یکم اپریل ہے۔۔ کہیں آپ یہ تو نہیں سمجھ رہے کہ میں نے کسی کو زبردست قسم کا فُول بنا کر اپنا دن خاص بنایا ہے؟ یا پھر کسی نے خدانخواستہ مجھے۔۔ نہیں نہیں ایسا بالکل نہیں۔۔ بلکہ آج کا دن خاص ہونے کی وجہ کچھ اور ہی ہے۔۔

آج مجھے سعودیہ عرب کے خُشک مزاج شہر ریاض میں آئے ہوئے چھ ماہ پندرہ دن ہو گئے ہیں۔۔ چھ ماہ پندرہ دن۔۔ ایک بھرے ، ہنستے کھیلتے گھر سے اُٹھ کر ایک اجنبی انجان جگہ بالکل تن تنہا، پیا کے دوار یہاں آ گئی۔۔
یہاں کی زندگی اور حالات پر تو لکھوں تو یہ بلاگ کم اور دُکھی داستان زیادہ بن جائے گی اس لیے مختصراً عرض کرتی چلوں گی کہ یہاں پر خواتین کی زندگی کافی محدود ہے اور یہ حدود مزید تنگ ہو جاتی ہیں اگر آپ کے پاس اپنی ذاتی کنوینس وغیرہ نہ ہو۔۔ یہاں عورتوں کا سڑکوں پر پیدل چلنا معیوب سمجھا جاتا ہے۔۔ غرضیکہ پہلے عورت سر سے پیر تک بُرقع میں ڈھکی ہو، پھر کسی گاڑی میں قید ہو کر نکلے تو نکلے۔۔ کُھلی ہوا میں آزادی سے سانس لینا ممنوع ہے۔۔۔

اسی ممانعت کے باعث میں نے یہ چھ ماہ پندرہ دن کا عرصہ اپنے فلیٹ میں ایک قیدی کی طرح کاٹا۔۔ شوہروں کا کیا ہے، دن بھر کام کاج کر کے تھکے ہارے آںے کے بعد یوں بھی ان کا دل گھومنے پھرنے کے لیے کہاں مچلتا ہو گا؟ ان کو کب محسوس ہوتا ہو گا کہ جانے کتنے ہی دن بیت گئے سورج کی شعاعوں کے لمس کو محسوس کیے ہوئے؟ لیکن میرے احساسات ان کھڑکیوں کے آگے نصب ہوئی ہوئیں آہنی سلاخوں کے پیچھے رہ کر بھی نہ جکڑے گئے۔۔۔
اس تمام عرصے بہت کوشش کی کہ لائسنس بن جائے تو گاڑی لے لیں۔۔۔ تبھی تازہ ہوا کے جھونکوں کو اپنے چہرے پر محسوس کرنے کی خواہش پوری ہو سکے گی، لیکن افسوس جس راہ کا انتخاب کیا وہ غلط تھا۔۔ غلط راہ پر چل کر کام بن جانے کی دعائیں بھی مانگیں لیکن ۔ ۔ ۔ 

پھر دیر آید درست آید۔۔ آخر جناب کو خیال آ ہی گیا کہ شارٹ کٹ واقعی ایک سراب کی طرح ہوتا ہے، جو نظر تو آتا ہے، قریب بھی لگتا ہے۔۔ لیکن اس کی اصلیت کچھ نہیں ہوتی۔۔ وہ منزل سے مزید بھٹکا دیتا ہے۔۔ درست راہ کا تعین کر لینا ہی اپنے آپ میں ایک بہت بڑا اطمینان ہوتا ہے، پھر مزید اس پر چلنے سے تشنگی بھی دور ہوتی جاتی ہے۔۔ ہم بھی پچھلے ایک ماہ سے اس درست راہ پر چل رہے تھے۔۔ راہ کٹھن تھی، لیکن منزل واضح اور اُمید روشن۔۔

آج صُبح سے ہی آسمان بادلوں سے ڈھکا ہوا تھا،، دھیمی ہوا کے جھونکے کھڑکی سے سرایت کرتے اندر آ کر دل میں ایک خوشگواریت کا احساس پیدا کر رہے تھے۔۔ دل کو امید تو تھی ہی، لیکن جیسے قدرت اس امید کو قبل از وقت ہی کسی نوید کی سدا سنا رہی تھی۔۔ میں نے اپنے احساسات پر قابو پانے کی بہت کوشش کی کہ یہ دل کی خوشگمانی بھی تو ہو سکتی ہے۔۔ دعائیں بھی جاری تھیں لیکن ذہن کو کسی دوسری خبر کے لیے تیار کرنے کی ناکام کوشش کرنا بھی نہیں بھول رہی تھی۔۔۔ صبح پانچ سے لے کر دس بجے تک۔۔۔ ہاں نہ۔۔ اُمید اور گُمان کی کیفیت میں ڈوبا وہ وقت کسی طویل تھکا دینے والی مسافت سے کم تو نہ تھا۔۔۔

بالآخر دس بجے موبائل کی گھنٹی نے دل کی دھڑکنیں بے ہنگم کر دیں۔۔ اُسی کی کال تھی جس کا انتظار صبح سے اب تک کر رہی تھی لیکن ریسیو کرنے میں دھڑکا کیسا۔۔۔؟ امید و بیم کی کیفیت میں یس کا بٹن دبا کر سلام کیا۔۔

منتظر سماعتیں
بے ترتیب دھڑکنیں
اور میری دعائیں۔۔

"مُبارک ہو۔۔ لائسنس بن گیا۔" دوسری طرف سے جیسے کسی نے زندگی کی نوید دے دی۔۔۔ دعاوٴں کو قبولیت کا شرف مل گیا۔۔۔ سر سجدے میں گر گیا۔۔۔
اور پھر۔۔
۔
۔

پھر یہاں آنکھیں بھی برسیں اور بادل بھی۔ ۔ ۔


***** 

مکمل تحریر اور تبصرے >>