Pages

Subscribe:

Wednesday, May 2, 2012

بازگشت

بازگشت


کبھی کبھی دورانِ گفتگو یوں بھی ہوتا ہے کہ انسان اپنے کہے ہوئے الفاظ واپس لینا چاہتا ہے۔۔   
"میں اپنے الفاظ واپس لیتا / لیتی ہوں۔"
ایسے فقرے عموماً سننے کو مل ہی جاتے ہیں۔۔  کل بھی ایک دوست سے بات کے دوران یہی سننے کو ملا کہ میں اپنے الفاظ واپس لے لوں؟ کیا کہہ دینے سے الفاظ واپس ہو جاتے ہیں؟ ان کا وہ اثر زائل ہو سکتا ہے جو انہوں نے کسی کے ہونٹوں کی گنگناہٹ اور کسی کی سماعت میں ساز بن کر پیدا کیا ہوتا ہے۔۔ میں نے کہا نہیں یہ ممکن نہیں ۔۔ الفاظ تو کبھی واپس ہو ہی نہیں سکتے۔۔ دلیل پیش کی گئی۔۔ کہ اگر یہ ممکن نہ ہوتا تو پہاڑ کیوں الفاظ کو واپس لوٹاتے؟

لیکن پہاڑ الفاظ لوٹاتے ہی کب ہیں۔۔؟ وہ تو صرف بازگشت سُنواتے ہیں۔۔۔ کہ لو اور سُنو۔۔ سُنو اور محسوس کرو۔۔۔ محسوس کرو اور سوچو کہ تم نے کیا کہہ دیا۔۔ اپنا کہا ہوا جب اپنی ہی سماعتوں کے رُوبرو آتا ہے تو انسان ایک بار سوچتا ضرور ہے کہ میں نے جو کہا وہ کس قدر درست ہے یا نہیں۔۔ یہی تو زندگی بھی ہے۔۔ ہم جو کہتے ہیں، جو کرتے ہیں۔۔ اس دُنیا کے در و دیوار سے ٹکرا کر کبھی نہ کبھی ہماری جانب ضرور ہی لوٹتا ہے۔۔۔ تب ہمیں احساس ہوتا ہے کہ ہم کیا کہتے اور کرتے رہے۔۔ اور یہی وہ وقت ہوتا ہے جب ہمیں اپنا احتساب کرنا ہوتا ہے۔۔۔
٭٭٭
مکمل تحریر اور تبصرے >>

Tuesday, April 3, 2012

زندگی کیا ہے؟


زندگی کیا ہے؟



 
زندگی کیا ہے؟

اسے بھلا کوئی کب سمجھا ہے۔۔
اور موت۔ ۔ ۔؟
موت تو بر حق ہے۔۔
بر حق کیا ہوتا ہے؟
وہ جسے ٹالا نہ جا سکے۔۔
تو اٹل موت کا آنا ہے؟
ہر نفس کو یہ ذائقہ چکھنا ہے۔۔
تو پھر یہ ڈر کیسا ہے؟
انساں غفلت میں کھویا ہے۔۔
موت تو جدائی ہے؟
اسے کب نارسائی ہے۔۔

اپنوں سے جدائی کب برداشت ہوتی ہے؟

اس کے لیے صبر کی سدا ہوتی ہے۔۔
صبر کیسے پر حاصل ہو؟
جب انا للہ و انا الیہ راجعون پہ یقین کامل ہو۔۔
یقین تو ہے پر۔۔۔؟
پر تیاری نہیں۔۔
زندگی کے کم جھمیلے ہیں؟
جھوٹے سارے میلے ہیں۔۔
یہ رعنائیاں پھر بھی پیاری ہیں؟
انہی سے پاک ہونا تیاری ہے
کیا یہ آسان ہے؟
یہ تو تیرا امتحان ہے۔۔
امتحان تو مشکل لگتا ہے؟
خُدا آسانی کرتا ہے۔۔

روکے مجھے بہت سے ریلے ہیں؟

یہ تو زندگی کے جھمیلے ہیں۔۔
اور زندگی کیا ہے۔۔؟
اسے کوئی کب سمجھا ہے۔۔

***







مکمل تحریر اور تبصرے >>

Sunday, April 1, 2012

کچھ دن ہوتے ہیں خاص


کچھ دن ہوتے ہیں خاص


 

کچھ دن ہوتے ہیں خاص لیکن کچھ دن اللہ پاک کے کرم و عنایات سے خاص بن جاتے ہیں۔۔ جیسے آج کا دن میرے لیے۔۔
لیکن آج تو یکم اپریل ہے۔۔ کہیں آپ یہ تو نہیں سمجھ رہے کہ میں نے کسی کو زبردست قسم کا فُول بنا کر اپنا دن خاص بنایا ہے؟ یا پھر کسی نے خدانخواستہ مجھے۔۔ نہیں نہیں ایسا بالکل نہیں۔۔ بلکہ آج کا دن خاص ہونے کی وجہ کچھ اور ہی ہے۔۔

آج مجھے سعودیہ عرب کے خُشک مزاج شہر ریاض میں آئے ہوئے چھ ماہ پندرہ دن ہو گئے ہیں۔۔ چھ ماہ پندرہ دن۔۔ ایک بھرے ، ہنستے کھیلتے گھر سے اُٹھ کر ایک اجنبی انجان جگہ بالکل تن تنہا، پیا کے دوار یہاں آ گئی۔۔
یہاں کی زندگی اور حالات پر تو لکھوں تو یہ بلاگ کم اور دُکھی داستان زیادہ بن جائے گی اس لیے مختصراً عرض کرتی چلوں گی کہ یہاں پر خواتین کی زندگی کافی محدود ہے اور یہ حدود مزید تنگ ہو جاتی ہیں اگر آپ کے پاس اپنی ذاتی کنوینس وغیرہ نہ ہو۔۔ یہاں عورتوں کا سڑکوں پر پیدل چلنا معیوب سمجھا جاتا ہے۔۔ غرضیکہ پہلے عورت سر سے پیر تک بُرقع میں ڈھکی ہو، پھر کسی گاڑی میں قید ہو کر نکلے تو نکلے۔۔ کُھلی ہوا میں آزادی سے سانس لینا ممنوع ہے۔۔۔

اسی ممانعت کے باعث میں نے یہ چھ ماہ پندرہ دن کا عرصہ اپنے فلیٹ میں ایک قیدی کی طرح کاٹا۔۔ شوہروں کا کیا ہے، دن بھر کام کاج کر کے تھکے ہارے آںے کے بعد یوں بھی ان کا دل گھومنے پھرنے کے لیے کہاں مچلتا ہو گا؟ ان کو کب محسوس ہوتا ہو گا کہ جانے کتنے ہی دن بیت گئے سورج کی شعاعوں کے لمس کو محسوس کیے ہوئے؟ لیکن میرے احساسات ان کھڑکیوں کے آگے نصب ہوئی ہوئیں آہنی سلاخوں کے پیچھے رہ کر بھی نہ جکڑے گئے۔۔۔
اس تمام عرصے بہت کوشش کی کہ لائسنس بن جائے تو گاڑی لے لیں۔۔۔ تبھی تازہ ہوا کے جھونکوں کو اپنے چہرے پر محسوس کرنے کی خواہش پوری ہو سکے گی، لیکن افسوس جس راہ کا انتخاب کیا وہ غلط تھا۔۔ غلط راہ پر چل کر کام بن جانے کی دعائیں بھی مانگیں لیکن ۔ ۔ ۔ 

پھر دیر آید درست آید۔۔ آخر جناب کو خیال آ ہی گیا کہ شارٹ کٹ واقعی ایک سراب کی طرح ہوتا ہے، جو نظر تو آتا ہے، قریب بھی لگتا ہے۔۔ لیکن اس کی اصلیت کچھ نہیں ہوتی۔۔ وہ منزل سے مزید بھٹکا دیتا ہے۔۔ درست راہ کا تعین کر لینا ہی اپنے آپ میں ایک بہت بڑا اطمینان ہوتا ہے، پھر مزید اس پر چلنے سے تشنگی بھی دور ہوتی جاتی ہے۔۔ ہم بھی پچھلے ایک ماہ سے اس درست راہ پر چل رہے تھے۔۔ راہ کٹھن تھی، لیکن منزل واضح اور اُمید روشن۔۔

آج صُبح سے ہی آسمان بادلوں سے ڈھکا ہوا تھا،، دھیمی ہوا کے جھونکے کھڑکی سے سرایت کرتے اندر آ کر دل میں ایک خوشگواریت کا احساس پیدا کر رہے تھے۔۔ دل کو امید تو تھی ہی، لیکن جیسے قدرت اس امید کو قبل از وقت ہی کسی نوید کی سدا سنا رہی تھی۔۔ میں نے اپنے احساسات پر قابو پانے کی بہت کوشش کی کہ یہ دل کی خوشگمانی بھی تو ہو سکتی ہے۔۔ دعائیں بھی جاری تھیں لیکن ذہن کو کسی دوسری خبر کے لیے تیار کرنے کی ناکام کوشش کرنا بھی نہیں بھول رہی تھی۔۔۔ صبح پانچ سے لے کر دس بجے تک۔۔۔ ہاں نہ۔۔ اُمید اور گُمان کی کیفیت میں ڈوبا وہ وقت کسی طویل تھکا دینے والی مسافت سے کم تو نہ تھا۔۔۔

بالآخر دس بجے موبائل کی گھنٹی نے دل کی دھڑکنیں بے ہنگم کر دیں۔۔ اُسی کی کال تھی جس کا انتظار صبح سے اب تک کر رہی تھی لیکن ریسیو کرنے میں دھڑکا کیسا۔۔۔؟ امید و بیم کی کیفیت میں یس کا بٹن دبا کر سلام کیا۔۔

منتظر سماعتیں
بے ترتیب دھڑکنیں
اور میری دعائیں۔۔

"مُبارک ہو۔۔ لائسنس بن گیا۔" دوسری طرف سے جیسے کسی نے زندگی کی نوید دے دی۔۔۔ دعاوٴں کو قبولیت کا شرف مل گیا۔۔۔ سر سجدے میں گر گیا۔۔۔
اور پھر۔۔
۔
۔

پھر یہاں آنکھیں بھی برسیں اور بادل بھی۔ ۔ ۔


***** 

مکمل تحریر اور تبصرے >>

Friday, March 30, 2012

خاموشی محوِ گفتگو ہے



خاموشی محوِ گفتگو ہے۔۔





کبھی کبھی ہمارے ارد گرد خاموشی اس قدر بڑھ جاتی ہے کہ پھر وہ ہم سے باتیں کرنے لگتی ہے۔۔ عجیب بات ہے نا، خاموشی اور بات چیت تو دو بر خلاف پہلوں ہیں، پھر یہ ایک کیسے ہو جاتی ہیں؟ خاموشی محوِ گفتگو کیسے ہو جاتی ہے۔۔

خاموشی میں انسان کا باطن اُس کے روبرو آ بیٹھتا ہے۔ پھر وہ ہمیں ہمارا اصل دکھاتا ہے، ہم کیا ہیں وہ بتاتا ہے، ہم اس سے بڑھ کر کیا ہو سکتے ہیں، اس کی امید جگاتا ہے۔۔ لیکن کبھی کبھی وہ آئینہ کی طرح ہمیں ہماری غلطیوں اور کوتاہیوں کی کریہہ صورت دکھا کر ڈراتا بھی ہے۔۔ یہی وہ مقام ہوتا ہے جب بہت سے لوگ اپنی حقیقت کا سامنا کرنے کی بجائے اس سے خوفزدہ ہو کر بھاگ نکلتے ہیں۔۔ پھر انہیں فرار کی تلاش ہوتی ہے جو انہیں خود سے بیگانہ کر دے۔ اس کے لیے وہ شور شرابے والی جگہوں کا رُخ کرتے ہوئے ایک ایسے ماحول کا حصہ بننا پسند کرتے ہیں جہاں کوئی خاموشی اُن کا اُن کے باطن سے دوبارہ کبھی متعارف نہ کروائے۔۔

خاموش لوگ خاموش پانیوں کی طرح گہرے ہوتے ہیں، جس میں اُترنا اور انہیں دریافت کرنا ایک کٹھن مرحلہ ہوتا ہے۔ وہ آسانی سے دوسروں پر آشکار نہیں ہوتے بلکہ اپنی ذات کو کسی راز کی طرح سنبھالے رکھتے ہیں۔۔ ایسے لوگوں کو دریافت کرنا گوہرِ نایاب ڈھونڈ لانے کے مترادف ہوتا ہے لیکن اس مہم میں نہ جانے کتنے لوگ اپنی جان سے ہاتھ بھی دھو بیٹھتے ہیں۔۔۔

شور دریا سے یہ کہہ رہا ہے سمندر کا سکوت
جس میں جتنا ظرف ہے اتنا ہی وہ خاموش ہے

لیکن کہتے ہیں نا کہ جب کوئی چیز حد سے بڑھ جائے تو وہ نقصان ہی دیتی ہے۔۔ خاموشی کے جہاں اتنے فوائد اور اہمیت ہے وہیں اگر یہ حد سے بڑھنے لگ جائے تو اس سے لگنے والی کاٹ بڑی گہری ہوتی ہے۔۔۔

خاموشی اگر رشتوں میں در آئے تو سرد مہری بن جاتی ہے۔
لوگوں میں حائل ہو جائے تو غلط فہمیاں پیدا کر دیتی ہے۔
ضرورت کے وقت بھی ترک نہ کی جائے تو کمزوری اور کم علمی بن جاتی ہے۔
حق بات کہنے کے لیے بھی نہ ٹُوٹے تو ایمان کے سب سے نچلے درجے پر گِرا دیتی ہے۔

خاموشی اس وسیع و عریض کائنات کا ایک خوبصورت گوہر ہے۔۔ایک ایسا گوہر جس کو اگر نگل لیا جائے تو اپنی جان سے ہاتھ دھونا پڑتے ہیں لیکن اگر درست استعمال کیا جائے تو آپ کا ظاہر اور باطن دونوں اس کے حُسن سے آراستہ ہو جاتے ہیں۔۔

*****
مکمل تحریر اور تبصرے >>

انتظار




انتظار



دیکھ جتنا تو مجھے انتظار کرواتی ہے نا۔ کبھی میں بھی کرواؤں گا۔ پھر تجھے پتہ چلے کہ جس کی دید کو آپ کی آنکھیں ہر وقت پیاسی ہوں اُسی کا گھنٹوں انتظار کرنا کیسا لگتا ہے۔"
"اچھا۔ ۔ ۔تُو؟ تو مجھے انتظار کروائے گا؟ یہ تو ہو ہی نہیں سکتا۔" اُس کو جیسے یقین تھا کہ وہ اُس کو کبھی انتظار کروا ہی نہیں سکتا۔
"کیوں میں کیوں نہیں کروا سکتا انتظار؟" اُس نے ناراضگی سے پوچھا۔
"وہ اس لیے کہ تُو تو خود مجھے دیکھے بنا دو پل نہیں گُزار سکتا۔ انتظار کیسے کرائے گا" وہ اترائی۔
"میری اس کمزوری کا فائدہ اُٹھاتی ہے تو ہمیشہ ہی۔" وہ خفا ہوا۔
"میں کہاں فائدہ اُٹھاتی ہوں۔ دیکھ نا گھر پر کتنا سارا کام ہوتا ہے۔ بے بے کے ساتھ رسوئی کا کام۔ بابے کے ساتھ مل کر جانوروں کو پٹھے اور چارا ڈالنا۔ گھر کی صفائی کرنا اور پھر تیرے لیے کھانا بنا کر اتنی شِکر دوپہر یہاں کھیتوں میں آنا۔ یہ سب کیا میں جان کر تُجھے انتظار کروانے کو کرتی ہوں؟" اُس کے پاس بھی سو بہانے تھے۔
"میں کچھ نہیں جانتا۔ کل سے اگر تُو پورے بارہ بجے یہاں نہ ہوئی تو یاد رکھ اُس دن میں ساری دیہاڑی میں تُجھے کہیں نہیں دکھوں گا۔" وہ بضد تھا۔
"ہائے تُو تو سنجیدہ ہی ہو گیا۔ اچھا چل اب روٹی کھا لے۔"
"نہیں کھانی مجھے روٹی۔ جا تُو جا کے کام کر۔ وہ زیادہ ضروری ہیں۔"
"اچھا چل نا۔ مان جا اب۔ آج میں شام تک یہیں کھیتوں میں تیرے ساتھ کام کرواؤں گی۔ میں سامنے نازی کو کہہ آئی تھی کہ گھنٹے دو گھنٹے بعد گھر چکر لگا کر اماں ابا کو دیکھ جانا۔" اُس نے گویا انکشاف کیا۔
"سچ؟" حامد نے تصدیق چاہی جیسے یقین نہ آیا ہو۔
"ہاں۔" وہ مُسکرا کر دھیمے سے بولی۔
"چل ٹھیک ہے پھر کھا لیتے ہیں روٹی۔ لیکن میں تھکا ہوا ہوں۔"
"تو؟"
"تو یہ کہ اب تیری سزا ہے کہ تُو ہی مجھے کِھلائے گی۔" وہ جُھوٹی ناراضگی سے منہ بنا کر بولا اور درخت کے ساتھ ٹیک لگا لی۔
"ہاہاہا ۔ ۔ ۔تُو بھی نا۔" سلمیٰ نے مُسکراتے ہوئے سر ہلایا اور پوٹری کی گانٹھ کھولنے لگی۔
جون کی گرم دوپہر کو برگد کے درخت کے نیچے بیٹھے ایک دوسرے کو کھانا کھلاتے اور ہنستے مُسکراتے باتیں کرتے حامد اور سلمیٰ اس بات سے قطعی بے خبر تھے کہ سامنے والے درخت کی نازک سی شاخ پر چڑا اور چڑی کے ایک چھوٹے سے گھونسلے میں سے چڑا سیاہ عُقاب کا شکار بن چُکا تھا۔
 

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

حامد ایک پسماندہ سے دیہات میں مقیم شُکر دین اور بشیراں کی اکلوتی اولاد تھا۔ ان کا تعلق ایسے گھرانے سے تھا جہاں فصل اچھی ہونے کی صُورت میں سال بھر کے لیے ذخیرہ کر لیا جاتا تھا۔ اور باقی ماندہ فصل کو بیچ کر جو پیسے ملتے تھے اُس سے اچھی گُزر بسر ہو جاتی تھی۔ زندگی میں اگر کچھ تھا تو اپنے خُدا کے لیے احساسِ تشکر، سکون اور محبت۔ اگر کسی چیز کی کمی تھی تو کسی ایک انسان کی جو اس خاندان کو مکمل کر سکے۔ وہ کمی بھی تب دُور ہو گئی جب حامد کی ماں بشیراں اپنی بھانجی کو اپنی بہو بنا کر اپنے گھر لے آئی۔ زندگی بہت ہموار تھی۔ ۔ ۔کسی بھی دُکھ کے گُزر کے لیے کوئی راستہ نہ تھا۔


٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

 

"بھاگو بھاگو۔ ۔ ۔جلدی کرو۔ دریا میں آنے والے سیلاب نے دریا کا راستہ بدل بدل دیا ہے۔ ساری ہری بھری لہلہاتی فصلیں برباد ہو جائیں گی۔ جتنی مٹی ہو سکتی ہے اکٹھی کر کے یہاں پہاڑیاں بنا دو۔ شاید کچھ بچت ہو جائے۔"
گاؤں کے سب مرد، عورتیں اور بچے راستہ بدلتے دریا کو روکنے کی کوشش میں لگے رہے۔
"یہ کیا ہو گیا بے بے۔ ساری فصلیں برباد ہو گئیں۔ جو پہلے سیراب کرتا تھا آج سب برباد کر گیا۔ ایسا بھی ہوتا ہے کیا بے بے۔ ایک ہی چیز ایک وقت میں اتنا نوازے اور اگلے ہی پل میں سب اُجاڑ دے۔" اُس نے بھیگے لہجے سے پوچھا۔
"کیوں نہیں میرے بچے۔ یہی تو اس زندگی کا دستور ہے۔ اگر چھاؤں ہے تو دھوپ بھی ہے۔ جو رب نوازتا ہے وہ ہی واپس بھی لے لیتا ہے۔ یہی اس زندگی کی حقیقت ہے۔ تُو غم نہ کر۔ مشکل وقت ہے کٹ جائے گا۔ صبر کر اور رب سے دُعا کر۔ کہ وہ صبر کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے۔" بے بے اُن کے گھٹنوں پہ سر رکھ کے بیٹھی سلمیٰ کے بالوں میں پیار سے ہاتھ پھیرتے ہوئے اُسے سمجھا رہیں تھیں۔

زندگی میں آنے والی چھوٹی تکلیفیں شاید آپ کو کوئی بڑی تکلیف سہنے کےلیے تیار کرتی ہیں۔





٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭



"حامد تُو شہر جانے کا ارادہ چھوڑ نہیں سکتا؟ میرا دل نہیں مان رہا۔ میں کیسے رہوں گی اتنا عرصہ تجھ سے دُور؟"
"دیکھ سلمٰی ساری زمین برباد ہو گئی ہے۔ اتنا پانی ہے کہ نکلتا نہیں۔ جب تک زمین دوبارہ کاشت کے قابل نہیں ہو جاتی تب تک بیٹھ کے انتظار کرتا رہا تو یہ گھر کیسے چلے گا؟"
"کیسے بھی کر لیں گے۔ دونوں مل کے کچھ کر لیں گے نا۔ لیکن تُو رُک جا۔"
"چل بتا کیا کر لیں گے دونوں مل کے؟"
"وہ میں نہیں جانتی۔ لیکن بس تُو نہ جا۔"
"ہاہا۔ ۔ پگلی۔ چل سو جا اب۔ اور مجھے بھی آرام کرنے دے۔ صُبح روشنی ہونے سے پہلے نکلنا ہے مجھے۔"
"منہ اندھیرے جانا ضروری ہے؟"
"کیوں؟"
"بس مجھے ڈر لگتا ہے۔"
"ڈرنا کیسا۔ سارے راستے دیکھے بھالے ہیں۔ اپنے ہی لوگ ہیں سب۔ اندھیرے بھی اپنے ہی ہیں۔" اُس نے شرارت سے کہا "چل اب زیادہ نہ سوچ اور مجھے بھی سونے دے۔"
وہ خود تو سو گیا لیکن نیند سلمٰی کی آنکھوں صُبح تک اُس نیند کی منتظر ہی رہیں جسے آنا ہی نہیں تھا۔




٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭


"بیٹی۔ شام ڈھل رہی ہے۔ کچھ دیر میں اندھیرا پھیلنا شروع ہو جائے گا۔ چل میری دھی اب گھر چل۔" روز کی طرح آج بھی اُس کا بابا اُسے لینے آبادی سے کچھ ہٹ کر دُور کھیتوں کی طرف اُس برگد کے درخت کے نیچے آیا تھا جہاں سے وہ گاؤں سے باہر جاتے اور واپس اندر آتے راستوں کو دیکھتی رہتی تھی۔
"بابا شہر سے آنے والی بسیں ابھی نہیں آئیں؟" اُس نے پوچھا۔
"نہیں میری رانی۔ وہ صُبح آئیں گی۔" اُنھوں نے اُس کے سر پر ہاتھ رکھتے ہوئے نم آنکھوں سے پچھلے تین سالوں سے بولا جانے والا جُملہ دہرا دیا۔
"اچھا۔ صُبح آئیں گی۔ چل پھر اب گھر چلیں۔ میں حامد کے لیے اُس کی پسند کے کھانے بنا لوں۔ صُبح پھر جب وہ آئے گا تو اُس کی پسند کے سب کھانے کھلاؤں گی اور یہ بھی بتاؤں گی کہ اُس کے انتظار میں میں نے برگد کے اُس درخت کو کبھی ویران نہیں ہونے دیا جسے اُس نے میرے انتظار میں آباد کیا تھا۔
"تُو آ جا حامد۔ اب کے تُجھے کبھی انتظار نہیں کرواؤں گی۔ وعدہ۔" اُس نے ہاتھ میں پکڑے دو سال پُرانے اخبار کر کھول کے اُس کی تصویر سے وعدہ کیا۔ جس کے اُوپر لکھا تھا "تلاشِ گُمشدہ۔"

اُس کے بابا اُس کو تھام کے واپس لے جا رہے تھے اور اُن کے چار سُو اندھیرا گہرا ہوتا جا رہا تھا۔


٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
 
 
 
مکمل تحریر اور تبصرے >>

خواب یا سراب

خواب یا سراب


یہ افسانہ میں نے 16 جون 2009 کو ون اردو پر ہی منعقد ہونے والے ایک مقابلے کے لیئے لکھا تھا، اور یہ اپنے اندر بہت سی کمزوریاں اور نا پختگی لیئے ہونے کے باوجود مقابلے میں دوسرے درجے پر رہا۔



اس چلتی گاڑی سے باہر دنیا کتنی متحرک ہے۔ اپنے محور کے گرد گھومتی زندگی کو میں اس شفاف شیشے سے بخوبی دیکھ سکتا ہوں۔ کبھی منظر میں ایک بھرپور زندگی جینے میں مگن لڑکے اور لڑکیاں آ جاتے ہیں اور کبھی کچھ لڑکھڑاتے ڈگمگاتے، چلنا سیکھتے بچے نظر آتے ہیں۔ کبھی میں بھی اسی دور سے گزرا تھا، جب چلنا سیکھا کرتا تھا۔ بڑا گرایا اس زندگی نے، انہیں بھی گرائے گی، اور پھر گر کر اُٹھنے اور چلنے کے چال چلن سب سکھا دے گی۔ باہر منظر میں ہر طرف زندگی کسی رقاصہ کی طرح محوِ رقص ہے اور دیکھنے والوں کو اپنے قریب بلارہی ہے۔ ۔ ۔ ۔ یا یہ بس مجھے ہی بُلا رہی ہے؟ شاید اسے بھی احساس ہے کہ ہر گزرتے پل میں میں اس سے دور ہوتا جا رہا ہوں۔
میرے چاروں طرف شور ہی شور ہے لیکن مجھے کیوں صرف دو آوازیں سن رہی ہیں: ایک میری سانوں کا شور اور دوسرا میرے دل کی تیز ہوتی دھڑکنوں کی صدا۔ ۔ ۔ ۔ کیوں یہ دھڑکن اور یہ آوازیں ہر گزرتے پل کے ساتھ تیز ہوتی جا رہی ہیں؟ کیوں یہ سرد ہوا کے جھونکے بھی میرے پسینے سے شرابور جسم کو سکھا نہیں پا رہے ہیں۔ ۔ ۔ ۔
اپنی جس منزل پر پہنچنے کے لیئے میں اتنا عرصہ سرگرداں رہا، اتنی بے تابی اور اذیت جھیلی اُسی منزل کی اور بڑھتے ہوئے کیوں میرا جسم بے جان ہو رہا ہے۔ ۔ ۔؟ کیوں ان قدموں میں منزل کو چھو لینے کی بے چینی نہیں۔ ۔ ۔؟ کیوں میرا ماضی ایک فلم کی طرح میری آنکھوں کے پردے پر رقصاں ہے ۔ ۔ ۔؟ کچھ بھی تو ایسا نہیں میرے ماضی میں جسے یاد کر کے میں ان لمحوں کے کرب کو خود پہ آسان کر سکوں۔
مجھے آج بھی یاد ہے سات سال کی عمر میں اُٹھایا گیا وہ ایک قدم مجھے ان راہوں پہ لے آیا۔ ۔ ۔
صوبہ سندھ کے ایک چھوٹے سے دیہات میں رہنے والا میں محمد بشیر، ایک کسان والدین کی اولاد۔ ۔۔ میرا تعلق ایک ایسے گھرانے سے ہے جہاں کھانے کو نوالے بھی گِن کے دیئے جاتے تھے ، عید کی عید کپڑے ملتے تھے جو ہمارے لیئے تو نئے ہوتے لیکن کسی اور کے لیئے بوسیدہ ڈھیر۔ ہم نو بہن بھائیوں کے ماں باپ رات دن کھیتوں میں کام کرتے اور ان کی کل آمدنی بس ہمارے کھانے پینے کا سامان ہی کر پاتی۔
میں ان دنوں بمشکل سات یا آٹھ سالوں کا ہوں گا، جب مجھ میں ایک لگن جاگی۔ ۔ ۔
کچھ کرنے کی لگن، جاننے کی لگن، کچھ بننے کی لگن۔
یہ شوق مجھے ہمارے گاؤں سے تعلق رکھنے والے جمیل صاحب کو دیکھ کے ہوا تھا۔ وہ کم سنی کی عمر میں ہی شہر لاہور چلے گئے تھے پڑھنے کے لیئے اور اب پڑھ لکھ کر صاحب لوگ بن چکے تھے۔ جب وہ اپنے اماں ابا سے ملنے گاؤں آتے تو ہر آنکھ انہیں دیکھ لینے کے لیئے بے تاب ہوتی اور ہر لب ان کی تعریف کو مچلا جاتا تھا۔ پورے گاؤں میں ان جیسا مکان بھی کسی اور کا نہ تھا۔
ایک بار وہ جب گاؤں آئے تو اپنے ساتھ ایک بڑا سا ڈبہ اٹھا لائے جس کا نام بعد میں انہوں نے ٹی وی بتایا تھا۔ اُن کے ابا میاں گرمیوں میں شام کے بعد اس ٹی وی کو باہر نکال کے رکھ دیتے اور پورے گاؤں کو اجازت تھی کہ وہ زمین پہ بیٹھ کے اس میں چلنے والی رنگ برنگی تصویروں کو دیکھ سکتا تھا۔ میں نہیں جانتا تھا سب انہیں دیکھ کے کیسا محسوس کرتے تھے لیکن میری بے تابی بڑھتی جاتی تھی۔ کچھ بننے کا شوق کچھ کرنے کی لگن کسی منہ زور سمندر کی طرح مجھ میں اُٹھا تھا۔
انہیں دنوں اس ٹی وی پہ ایک اشتہار آیا
"پڑھا لکھا پنجاب خوشحال پاکستان**"۔
اس ایک فقرے نے میری راہوں کا تعین کر دیا۔ میری آنکھوں میں ایک خواب جاگا۔ ۔ ۔ میں تہیہ کر چکا تھا اب مجھے کیا کرنا ہے۔ میرے خواب میری منزل میرے سامنے تھی۔ ۔ ۔ اور اسی رات میں اپنی ماں کی جمع پُونجی میں سے کچھ رقم جو کہ صرف سفر میں درکار تھی، لے کر اپنی منزل کی اور بڑھ گیا۔ آدھی رات کو میں لاہور جانے والی گاڑی پر چڑھا اور کسی نہ کسی طرح لاہور لاری اڈے پہ اتر گیا۔ ۔ ۔

لاہور۔ ۔ ۔ خوابوں کا شہر۔ ۔ ۔ لیکن اُس وقت ایک ہولناک تعبیر کی صورت میں میرے سامنے کھڑا تھا۔ وہ لوگ، وہ منظر وہ فضا ئیں ، سب کتنا اجنبی تھا، میری آنکھیں کسی شناسا کسی مددگار کی متلاشی تھیں لیکن اس تلاش کا کچھ حاصل نہ نکلا۔ ۔۔
ایک دم میری آنکھیں بھیگنے لگیں، پھر مجھے احساس ہوا میں رو رہا ہوں، کیوں۔ ۔ ۔ کس وجہ سے۔ ۔۔ ۔ یہ نہیں جانتا تھا، شاید قدرت مجھے میرے ہونے والے انجام پر رُلا رہی تھی۔ میں نے بہت پوچھا، بہت ڈھونڈا اپنی جنت کا پتہ، وہ اسکول جس میں مُفت تعلیم دی جائے، جس کی تلاش میں میں یہاں تک بے سروسامانی کی کیفیت میں چل نکلا تھا۔ مجھے راہیں تو مل گئیں تھیں لیکن میری منزل کھو گئی تھی۔ میں سارا دن ایسے ہی مارا مارا پھرتا رہا، روتا رہا، لیکن کوئی نہ آیا۔ ۔۔ ۔
شام کو ایک فُٹ پاتھ پہ تھک کے بیٹھا اور وہیں سو گیا۔ ۔۔ ۔ تب شاید قدرت کو مجھ پہ رحم آ گیا تھا یا پھر فرشتے کے روپ میں کوئی بھیڑیا تھا؟ اس کا تعین میں آج تک نہیں کر پایا۔
مجھے نیند سے ایک مشفق آواز نے جگایا
”اُٹھو بیٹا! یہاں کیوں سو رہے ہو؟ گھر کیوں نہیں جاتے؟“
”جی میں گھر سے بھاگ کے آیا ہوں یہاں پڑھنے کے لیئے۔“ میں نے بھرائے ہوئے لہجے میں کہا۔
” تم کیا پڑھنے آئے ہو بیٹے۔ ۔ ۔ اور کہاں سے پڑھنا ہے۔ ۔ ۔ ؟ ۔
” پتہ نہیں جی میں نے ٹی وی پر اشتہار دیکھا تھا اور بس آ گیا۔“ میرا اعتماد ان کے شفیق اور اپنائیت سے بھرپور لہجے کی وجہ سے تھوڑا تھوڑا بحال ہو رہا تھا۔
اس کے بعد ان دونوں حضرات میں کیا بات چیت ہوئی مجھے کوئی اندازہ نہیں لیکن اس کے بعد مجھے ان کے ساتھ چلنے کی نوید سنائی گئی اور میں بخوشی ان کے ساتھ ہو گیا،اور مجھے لگا میرا خواب تعبیر پانے والا ہے۔
اُس کے بعد سے جیسے زندگی ہی پلٹ گئی، کتنی نئی تھی یہ دنیا میرے لیئے، کھانے کی بہتات، پہننے کو اچھا لباس، سونے کے لیئے آرام دہ بستر۔ دو دن بعد ہی مجھے کسی اور جگہ پہنچا دیا گیا، جہاں میرے جیسے اور بھی کئی بچے تھے۔ کچھ تو ان میں سے خود میں مگن تھے، کئی بے فکری سے کھیلتے کودتے اور کچھ اپنے گھروں کو واپس جانے کے لیئے افسردہ۔ مجھے وہاں جا کے ایک عجیب سی خوشی اور سکون ملا، زندگی کی وہ تمام آسائشیں جن سے میں محروم رہا یہاں مجھے ملیں۔
کچھ عرصے تک تو تعلیم کی طرف توجہ نہیں دی گئی البتہ کچھ کام کاج سکھائے گئے۔ اُس کے بعد تعلیم کا مرحلہ بھی آیا، لیکن ہمیں بس مذہبی تعلیم ہی دی جاتی۔ قاعدہ پڑھایا گیا، حروف سکھائے گئے، پھر الفاظ سے ہوتے ہوئے آیات اور پھر بالآخر سپارہ ختم ہوا، نماز پڑھنا سکھائی گئی، ارکان سکھائے گئے اور سب پر سختی سے عمل کروایا گیا، لیکن کبھی ان پڑھائے جانے والے الفاظ کا ترجمہ یا مفہوم نہیں بتایا گیا، سوچوں کی اُڑان پر پہرے تھے۔ ۔۔۔ پھر جب مزید چند سال گزرے تو جہاد، نیکی کو پھیلانے اور بدی کو روکنے پر چند کتابیں پڑھائی گئیں۔ تعلیم کے معاملے میں طلباء بے اختیار تھے، انہیں وہی پڑھنا ہوتا جو اُستاد صاحب پڑھاتے، نہ ہم کتاب کا تعین کر سکتے تھے نہ ان کی بتائی ہوئی کسی بات پر اختلاف یا سوال۔ اور استاد کی نافرمانی کو ایک گناہِ عظیم بتا کر ہماری روح تک میں جذب کرا دیا گیا۔ استاد جی کہتے دن ہے تو دن، رات ہے تو رات۔ کسی کو اس پہ شک کرنے کی بھی اجازت نہ تھی۔
وقت گزرتا گیا، عمر بڑھتی گئی اور زندگی اپنے رنگ کھوتی گئی۔ ۔ ۔ اس عرصے میں ہمیں آنکھیں بند کرا کے ایک گمنام سفر طے کروایا گیا، اور جب آنکھیں کُھلیں تو بے فکری اور اطمینان کی جگہ ایک انجانی سی کسک نے لے لی۔ زندگی کی روشنیاں آنکھوں میں چُبھنے لگ گئیں۔ مجھے پتہ بھی نا چلا یہ سب کب سے اور کیسے ہوا۔ ۔ ۔ ؟ لیکن اپنی نوجوانی تک پہنچتے پہنچتے ہر چیز اپنی کشش کھو چکی تھی۔ آنکھیں بس ملک میں ہونے والے فسادات دیکھتیں، کان مظلوم عورتوں اور بچوں کی چیخ و پکار سُنتے اور دل میں ایک نفرت اور غصہ بھرا تھا، بھرا تھا یا بھر دیا گیا تھا۔ ۔ ۔ ۔ میں وثوق سے کچھ کہہ نہیں سکتا۔ ۔ ۔ ۔ لیکن بس جی چاہتا تھا کچھ ہو جائے اور ہر طرف ایک سکون چھا جائے اور سب ٹھیک ہو جائے۔
پھر اُنہی دنوں، مجھے میرے ایک استاد کے ساتھ ایک سفر کی سعادت نصیب ہوئی۔ وہ سفر تھا۔۔ ۔ ۔ جنت تک کا سفر ۔ ۔ ۔

جنت۔ ۔ ۔ ۔ جس کا تصور سالوں سے گھوٹ گھوٹ کر ہمیں پلایا گیا تھا، جو اب شاید ہمارے خون میں رچ بس گیا تھا۔ وہی جنت ان آنکھوں کے سامنے جلوہ گر تھی۔
کیسا سکون تھا، کیسا ٹھہراؤ تھا وہاں کی فضاؤں میں، ٹھنڈی زمین پر قدم رکھتے ہی روح تک ایک سکون سرائیت کر گیا تھا۔ یوں لگتا تھا کہ زندگی کے اس جلتے تپتے صحرا میں ماں کے آنچل نے چھاؤں اور مامتا کی ٹھنڈی آغوش میسر آگئی ہو۔ وہاں میں نے عُمرہ کیا، نفل ادا کیئے اور پھر واپس اپنی اس بے رنگ دنیا میں آ گیا، لیکن پھر اس بے رنگ زندگی میں رنگ بھرے گئے، مجھے جو جنت دکھا کے چھپا لی گئی، اسے پا لینے کی خواہش آہستہ آہستہ جنون کی کیفیت اختیار کرتی جا رہی تھی ۔ حقیقی جنت کا تصور تو اس بھی کہیں بڑھ کے تھا۔
کچھ دن مجھے میری ان سوچوں کے ساتھ اکیلا چھوڑا گیا لیکن اس کے بعد، میری اس پیاس کو مزید بڑھا دیا گیا۔۔ ۔ ۔
روحانیت کیا ہوتی ہے؟ بدی کو مٹانے کے علاوہ مذہب اور کیا کہتا ہے؟ خدا اور اس کی ذات کیا ہوتی ہے؟ اس کے بارے میں ہمیں کبھی آگاہی نہیں دی گئی اور نہ ہی سوال کرنے کی اجازت۔ ہمیں فقط اتنا درس دیا گیا کہ کس طرح شیطان کے کارندوں نے اس زمین پر فساد برپا کیا ہوا ہے، اور ان کارندوں کو مٹانا ہی ہماری زندگی کا مقصد ہے، اور اس کے لیئے جان جائے تو یہ ایک سعادت ہے، ایک شہادت ہے۔ اور اس کا موقع اللہ پاک اپنے خاص بندوں کو ہی عطا فرماتا ہے۔
مجھے اپنے ایک مسلسل اضطراب کی وجہ سمجھ میں آ گئی، کہ کیوں میرے دن عذاب اور راتیں بے خواب ہیں، میری جاگتی آنکھوں میں ایک خواب بس گیا، اس سعادت کو حاصل کرنے کا۔
پھر یہ زندگی مجھے ایک خار دار ڈال کی طرح لگنے لگی، جسے ہم انسان اپنے دونوں ہاتھوں میں بھینچے رکھتے ہیں اور وقت سرکتے ہوئے اس ڈال کو لمحہ لمحہ ہمارے ہاتھوں سے کھینچتا ہے۔ بدلے میں صرف گھاؤ ملتا ہے، ہاتھ لہو لہان ہو جاتے ہیں لیکن وہ ڈال چھوڑنے پر ہاتھ راضی نہیں ہوتے۔ لیکن میں اب اس ڈال کی تکلیف دہ پکڑ سے تنگ آ چکا تھا۔ میری منزل تو میرا وہ خواب میری جنت تھی، جس کا جلوہ میں کچھ دن پہلے ان آنکھوں سے دیکھ کے آیا تھا۔
پھر یوں ہوا، کچھ دن بعد میرا وہ خواب تعبیر لیئے میرے سامنے تھا۔ وہ جسے پانے کے لیئے میں میں تدبیریں کیا کرتا تھا ، وہ مجھے بنا کچھ کیئے ہی مل گئی، بنا مانگے ہی۔
ایک بار پھر میرا خواب حقیقت کا لبادہ اوڑھے میرے سامنے تھا۔

پھر وہ صبح طلوع ہوئی، جس دن مجھے میری تعبیر ملنی تھی۔ کچھ بھی تو نہیں کرنا تھا مجھے، صبح صبح نہا دھو کے نفل ادا کیئے، سب نے مشترکہ طور پر اپنے رب کے ہاں اس دی جانے والی قربانی کی قبولیت کی دعا مانگی، پھر سب نے مجھے اور میرے دو ساتھیوں کو شہادت کی مبارکباد دینی شروع کر دی، اور اب میں اس گاڑی میں بیٹھا اپنے ماضی کے اوراق اُلٹ رہا ہوں۔
آج مجھے اس بے چینی، اس تکلیف سے نجات مل جائے گی، چند گھنٹے۔ ۔ ۔۔ صرف چند گھنٹے اور، پھر بس میں ہوں گا اور ایک دائمی سکون اور عشرت۔ جہاں کہیں ان آنکھوں کو یہ خون خرابا نہیں دیکھنا پڑے گا، کہیں مظلوم عورتوں اور بچوں کی چیخ و پکار نہیں ہو گی، ہو گا تو بس آرام ہی آرام اور سکون ہی سکون۔
میں کب سے خود کو یہی سمجھا رہا ہوں لیکن مجھے کیوں لگ رہا ہے کہ میرے لفظ کھوکھلے اور یہ بہلاوے جھوٹے ہیں۔ آج کیوں وہ سب استاد جن پر آنکھ بند کے اعتبار کرتا تھا وہ سب جھوٹے اور مکار لگ رہے ہیں۔ کیوں میرا تنفس اتنا تیز ہے کہ اس کے شور میں کئی سالوں حاصل کیئے جانے والے سبق کی آوازیں ماند پڑ رہی ہیں۔ ۔ ۔ ۔ کیوں دل اتنی تیزی سے دھڑک رہا ہے کہ ایسا لگتا ہے ابھی سینے سے باہر نکل کر میرا گریبان پکڑ لے گا ۔ ۔۔ ۔ زندگی کی اس خاردار ڈال پہ چھوٹتے سمے ایک نرم و نازک گلاب کا گماں کیوں ہو رہا ہے، جسے ہمیشہ تھامے رکھنے کو دل چاہے۔۔ ۔ ۔ میرا خواب میری منزل سب مدھم کیوں ہو گئے۔ ۔۔ ۔ اب ان آنکھوں سے وہ تمام کرب ناک منظر ہٹ گئے ہیں اور ایک بچے کی معصوم سی مسکان ہی بھلی لگنے لگ گئی ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔
کیا میں بھی بد ہو گیا ہوں۔ ۔ ۔ ۔؟ کیا برائی کے اس کارندے نے مجھے بھی محصور کر لیا ہے۔ ۔ ۔ ؟ جو مجھے چند منٹوں میں ملنے والی شہادت معتبر محسوس نہیں ہو رہی۔ ۔۔ ۔ کیا میں ڈر رہا ہوں یا میرا عمل ہی باعثِ اطمینان نہیں۔ ۔ ۔ ۔؟
گاڑی ایک چرچراہٹ کی آواز سے رُک گئی ہے اور میرے باقی دو ساتھی ایک سرعت سے نیچے اترے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ لیکن میں کیوں پتھر ہو رہا ہوں۔ ۔ ۔ یا میں مرنے سے پہلے ہی مر گیا۔۔ ۔ ۔ یہ گولیوں کی آواز کسی صُور کی مانند لگ رہی ہیں، لیکن صُور تو ابھی پھونکا جائے گا، وہ صُور جو اس وقت میرے بدن پر بندھا ہے۔ میں تو بخوشی راضی ہوا تھا اب کیوں میرا کلیجہ دہل رہا ہے۔ ۔ ۔۔ گاڑی عمارت کے اندرونی حصے میں داخل ہوئی ہے، اور وقت تھم گیا۔ ۔ ۔ میں سمجھ نہیں پا رہا اپنے دل کی آواز اپنی سانسوں کا بین اور یہ کیسی آواز اُبھر رہی ہے میرے کانوں کے نزدیک۔ ۔۔ یہ تو میرا ہی ساتھی ہے، کیا کہہ رہا ہے یہ۔ ۔ ۔ ۔؟ 7۔ ۔ ۔ 6۔ ۔ ۔ 5۔ ۔ ۔ سب ختم ہونے میں فقط کچھ پل، میری زندگی کا حاصل ایسی موت۔ ۔ ۔ جہنم سے پہلے جہنم کی آگ۔ ۔ ۔4۔ ۔ ۔ 3۔ ۔ ۔ اور اب سب ختم ہو جائے گا، میرا خواب، میری جنت کیا فقط ایک سراب تھا۔ ۔ ۔۔ ? اور میرا ایسا وقتِ آخر۔ ۔ ۔ ؟ یا اللہ۔ ۔ ۔ 2۔ ۔۔ ۔ ۔1۔ ۔ ۔ ۔0000 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
.
.
.
.
.
.
سب ختم ہو گیا، یہ دنیا، بدی، برائی کے کارندے اور کئی بے گناہ بھی شاید ۔ ۔ ۔ ۔
کیا ان میں کوئی نے گناہ بھی ہو سکتا ہے۔ ۔۔ ۔ یہ سب میں نے پہلے کیوں نہیں سوچا۔ ۔ ۔ کیا اسی لیئے میری روح بے چین ہے، ابھی تک تاریکیوں میں گم ہے۔ ۔ ۔ وہ روشنیاں کہاں گئیں جو ایسی شہادت کے بعد میرا استقبال کرنے آنے والی تھیں۔ ۔ ۔
کیا چند لمحوں پہلے جب میں حیات تھا تو وہ اضطراب اسی لیے تھا کہ میں بدی کے خلاف جنگ پر نہیں بلکہ معصوم، نہتّے اور آنے والی موت سے بے خبر لوگوں کے لیئے ایک سانحہ بن کر آ رہا تھا۔ ۔ ۔۔ کیا میرا دل مجھے روک رہا تھا۔ ۔ ۔۔ ؟ اور وہ سانسوں کا شور مجھے میرے غلط ہونے کی دُہائی دے رہے تھے۔ ۔ ۔؟ کیا ان سب کا خون میری گردن پر ہے۔ ۔ ۔ ؟
اس سب میں میں کتنا قصوروار ہوں۔ ۔ ۔ زندگی کو میرے سامنے اسی طرض سے رکھا گیا تھا، اور سالوں مجھے اسی کام کے لیئے تیار کیا گیا تھا، شعور اور آگاہی کے دروازوں کو مجھ پر بند کر دیا تھا تھا۔ ۔ ۔ ۔ میری آنکھوں کو فقط ایک خواب دیا گیا تھا جنت کا حصول اور اس خواب کی منزل یہی تھی۔ ۔ ۔ ۔ وہ سب کیا تھا۔ ۔ ۔۔؟ اب کیوں میری روح بھٹک رہی ہے۔ ۔ ۔ ۔ کیا یہ میرا خود ساختہ عمل تھا، اور میں سزا کا حقدار ہوں۔ ۔ ۔ ۔ میں کم علم تھا یا بنا دیا گیا۔ ۔ ۔ ۔ کون دے گا مجھے ان سوالوں کے جواب۔ ۔ ۔ ۔ کون؟


(پچھلے دنوں پی ٹی وی پہ ایک کمرشل آتی تھی "پڑھا لکھا پنجاب خوشحال پاکستان" اور اس میں یہ بتایا جاتا تھا کہ سرکاری اسکولوں میں مڈل تک تعلیم مُفت ہے۔)
مکمل تحریر اور تبصرے >>

جو تھم جائے وہ زندگی نہیں

جو تھم جائے وہ زندگی نہیں


زندگی منسوب ہے
سانسوں کے چلنے سے
دلوں کے دھڑکنے سے
آہوں کے مچلنے اور
خوابوں کے سنورنے سے
سو جو تھم جائے۔۔
وہ زندگی نہیں۔۔


زندگی کیا ہے سوائے ایک مسافت کے۔۔ ایک ایسی مسافت جس کی منزل تو متعین ہے پر راہیں جُدا جُدا۔۔ انجان و خفا خفا۔۔ خفا یوں کہ جانے کب، کہاں وہ یک دم آپ سے اپنا ہاتھ چھڑا لیں اور آپ کو ایک نئی راہ کے حوالے کرنے میں ایک پل کو بھی نہ ہچکچائیں۔۔ اُن راہوں کو اس سے کوئی غرض نہیں کہ آپ کی زندگی کے وہ رنگ ڈھنگ، وہ دوست ساتھی جو آپ کے لیے بہت اہم ہوتے ہیں، اس کے ساتھ ہی پیچھے۔۔۔ کہیں بہت پیچھے رہ جاتے ہیں۔۔
کسی کو بھی اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ان راہوں پر چل کر آپ نے زندگی کو سمجھا ہوتا ہے، خود کی پہچان کی ہوتی ہے اور کئی دوستوں، کئی رشتوں کو پایا ہوتا ہے۔۔۔ اور پھر وہ سب پھول لمحے اور خوشبو باتیں۔۔ انہی راہوں کے ساتھ ہی آپ کو الوداع کہہ دیتی ہیں۔۔

اب آگے۔۔ نئی راہیں، نئی زندگی اور نئی باتیں آپ کی منتظر ہیں۔۔۔ ایک بار پھر ایک نیا امتحان آپ کے سامنے ہے۔ پھر سے آزمائش کی کئی کسوٹیاں آپ کے لئے تیار آپ کی منتظر کھڑی ہیں۔۔ بہت سے نئے چیلنجز آپ ان راہوں میں کھڑے آپ کو شکست دینے کو پوری طرح تیار کھڑے ہیں۔۔ اب پھر سے ایک نئی راہ سے ملنے والے تمام پھولوں اور کانٹوں کو چُن کر آپ نے اپنا دامن بھرنا ہے۔۔ اور آگے بڑھتے جانا ہے۔۔ بڑھتے جانا ہے۔۔۔۔

میں۔ ۔ ۔ ایک بار پھر ایک دو راہے پر کھڑی ہوں۔ میرے آگے ایک نئی دنیا، کئی نئے شب و روز، کچھ خوش رنگ بہاریں اور کچھ دلسوز خزایں مجھے اپنی بانہوں میں سمیٹ لینے کو تیار کھڑی ہیں۔۔ یہ سب مسکرا مسکرا کر مجھے دیکھتیں۔۔ مجھے اپنی اَور بلاتی ہیں، لیکن۔۔۔ کچھ ہے جو میرے قدم روکتا ہے۔۔
میں پلٹ کر دیکھوں تو معلوم ہوتا ہے کہ پچھلی راہوں کی یادیں۔۔ بہت سی باتیں۔۔ کچھ سردیوں کی ٹھنڈی بارشیں اور کچھ گرمیوں کی طویل دوپہروں میں گہرے نیلے سمندر کی وہ اٹکھیلیاں۔۔کچھ قہقہے تو کچھ آنسو۔۔ میرا پلو پکڑے، حسرت سے مجھے تک رہے ہیں۔۔ ان کی آنکھوں میں، اُن کے چہرے پر ایک بے یقینی اور ایک سوال ہے۔۔ کیا تم چلی جاؤ گی۔۔؟
ان کے اس سوال کی بازگشت مجھے اپنے وجود میں بھی کہیں سنائی پڑتی ہے۔۔

کیا میں چلی جاؤں گی۔۔؟ کیا واقعی میں چلی جاؤں گی۔۔؟

ہاں۔۔!! میں چلی جاؤں گی۔۔ مجھے جانا ہی ہے۔۔ ہر اس چیز اور انسان سے دور جو کبھی میری ہم نوا ہو کرتی تھی۔۔ ان سب سے کہیں بہت دُور۔۔ کسی نئی دنیا میں۔۔

اور اب جب میں جانے کے لیے تیار کھڑی ہوں تو ان سب کی طرف سے مجھے ایک تحفہ بھی پیش کیا گیا ہے۔۔ جب میں اس تحفے کی طرف دیکھتی ہوں تو مجھے معلوم ہوتا ہے کہ یہ ایک بہت ہی خوبصورت گُلدستہ ہے۔۔ اس میں ہر رنگ کے، میری یادوں کے کئی پھول ہیں۔۔ کچھ خوشبو دار لمحے بھی۔۔ غور سے دیکھوں۔۔ تو کچھ کانٹے بھی ہیں۔۔ آج تو وہ بھی مسکا رہے ہیں، جیسے کہہ رہے ہوں۔۔
"دیکھا! ہم نے ہی تو تمہیں یہ ہمت، یہ بہادری بخشی۔۔ اگر ہم تمہیں چھوٹی چھوٹی تکلیفوں سے گھائل نہ کیا کرتے تو آج اتنی بڑی تکلیف کیسے سہہ پاتیں۔۔؟" ان کی بات سن کر میرے ہونٹوں پر ایک زخمی سی مسکراہٹ آ جاتی ہے۔۔
اس گُلدستے میں وہ سب کچھ مقید ہے جو میں نے ان راہوں سے پایا۔۔ اس میں جِیا۔۔ اب رُخصت کا وقت آ گیا ہے۔۔ مجھے جانا ہے۔۔ میں ان سب سے منہ موڑتی ہوں اور آگے بڑھ جاتی ہوں۔۔۔

آگے۔۔ ایک نئی زندگی کو اپنا ہاتھ تھما رہی ہوں۔۔ آنکھیں نم ہیں۔۔ قدم بوجھل۔۔ دل پُر سوز۔۔ لیکن پھر جب میری نظر اس گُلدستے پر پڑی تو ہونٹوں اور آنکھوں میں ایک مسکراہٹ جگمگا اُٹھی۔۔۔ دل سے فوراً ایک آواز آئی۔۔۔
"میں نے کیا کھویا؟ کچھ بھی تو نہیں۔۔ اُس سب کو تو یادوں کے اس گُلدستے کی صُورت میں اپنے ساتھ لے تو آئی۔۔ سب میرے پاس ہی تو ہے۔۔" دل کی بات پر دماغ سرشار ہو گیا اور فوراً تمام وجود کو ایک خوشی کا پیغام ارسال کیا۔۔

اب میری چال میں اعتماد اور آنکھوں میں ایک چمک ہے۔۔

میں اس نئی زندگی کی نئی صبح کا سورج، اُگتا دیکھنے کے لیے تیار ہوں۔۔ اب میری نظر میں زندگی سے آنکھیں ملا کر چلنے کا حوصلہ موجود ہے۔۔ کیونکہ میرا ماضی میرا کل۔۔ اُس سے سیکھی جانے والی ہر بات، اُس کے لمحوں کی ہر یاد۔۔۔ مجھ سے چُھوٹی نہیں۔۔ میرے ساتھ ہے۔۔ اب میں زندگی کی راہوں پر آگے بڑھ رہی ہوں۔۔ اور مجھے سدا یونہی آگے بڑھنا ہے۔۔ کیونکہ
جو تھم جائے،،، وہ زندگی نہیں 
مکمل تحریر اور تبصرے >>