Pages

Subscribe:

Friday, March 30, 2012

سیدھا راستہ

سیدھا راستہ


کیا آپ نے کبھی چلتے ہوئے خود پر غور کیا ہے؟ کیا آپ جانتے ہیں کہ آپ کیسے چلتے ہیں؟ یا آپ بھی اُن لوگوں میں سے ہیں جو ہمیشہ دوسروں کو ہی قابلِ غور سمجھتے ہیں اور اپنی ہستی سے کہیں دور نکل جاتے ہیں ۔ ۔۔ فراموش کیئے رہتے ہیں خود کو؟

کل شاپنگ مال کے لمبے، بڑے اور لوگوں سے کھچا کھچ بھرے سفید سنگِ مرمر کے فرش پر چلتے ہوئے ایک عجیب خیال نے مجھے اپنی طرف متوجہ کیا۔ اُلٹے سیدھے راستوں پر چلتے چلتے ایک دم میرا دل چاہا کہ میں اس فرش میں ماربل کے دو بلاکس کو جوڑتی اس سیدھی لائن پر دور تک چلوں۔ ۔ بس پھر کیا تھا، ارداہ باندھا اور ہو لی اپنے متعین کیئے ہوئے راستے کو۔
اس پر چلتے ہوئے مجھے احساس ہوا کہ بظاہر سیدھا اور سادہ نظر آنے والا یہ راستہ بھی اس قدر دشوار اور پیچیدہ ہو سکتا ہے۔ اُس پر چلتے قدم خود بخود ڈگمگا جاتے، یوں لگ رہا تھا جیسے بہت سی قوتیں آپ کو اس راستے سے ہٹانا چاہ رہی ہوں۔ اس پرقدم جما کر چلتے رہنے کے لیئے مجھے بہت کوشش کرنی پڑ رہی تھی۔ دنیا میں شاید ہر چیز کا کوئی نہ کوئی تقاضا ہوتا ہے۔ لوگوں کے تقاضے، رشتوں کے تقاضے، دنیا داری کے تقاضے۔ اسی طرح اس راستے کا بھی ایک تقاضا تھا، کہ پوری توجہ اور ارتکاز کے ساتھ اس پر چلا جائے
ورنہ یہ راستہ آپ کو اپنا راہی بنانے کو تیار نہ تھا۔ سو جب اس کے تقاضے پورے کر کے اس پر قدم آگے بڑھانے شروع کیئے تو یہ نیا راستہ اکتاہٹ کی بجائے لطف دینے لگا، اس پر چلنے میں مزہ آنے لگا اور خود اعتمادی بھی پیدا ہو گئی۔ اپنے ارد گرد لوگوں سے بلکل بے نیاز ہو گئی کہ کہیں وہ مجھ پر ہنس تو نہیں رہے، تعجب سے میری طرف دیکھ تو نہیں رہے۔ بس میں تھی اور ایک لگن، اس راستہ کو عبور کرنے کی۔۔۔۔
اورآخر کار میں کر ہی پائی۔ ۔ ۔ ۔

اگر ہم غور کریں تو یہ دنیا بھی ایک شاپنگ مال کی طرح ہے، جہاں ہزاروں سینکڑوں چیزیں آپ کو اپنی طرف متوجہ کرتی ہیں آپ کو اپنی طرف کھینچتی ہیں بلکل ایسے ہی جیسے کششِ ثقل اپنے سے دور ہٹنے والے کو اپنی طرف کھینچتی ہے کہ کہیں کوئی جانے نہ پائے۔ اسی طرح اس دنیا کی رنگینیاں بھی انسان کو اپنی طرف کھینچے رکھنا چاہتی ہیں۔ اور اس سب کے بیچ ایک سنسان اور غیر آباد سی جگہ نظر آتی ہے جو کہ سیدھا راستہ ہوتا ہے۔ اس راستے کے مسافروں کو بڑی محنت کرنا پڑتی ہے، اپنا نفس اپنی خواہشات یہ دنیا داری سب مارنا پڑتا ہے۔ ایسے لوگ دوسروں سے بلکل بے نیاز ہو جاتے ہیں۔ انھیں یہ بات پریشان نہیں کرتی کہ فلاں بندہ یہ کر رہا ہے تو میں کیوں نہیں، فلاں کے پاس یہ چیز ہے تو میرے پاس کیوں نہیں۔ حسد، جلن، خواہشات کا منہ بند کرنا پڑتا ہے۔ یہی لوگ ہوتے ہیں جو اپنی راہوں اور اپنی منزل سے حقیقی معنوں میں آگاہ ہوتے ہیں اور اس کے لیئے کوششیں کرتے ہیں۔ انھیں یہ لگن نہیں رہتی کہ اس دنیا کو ہم کیسے بہتر سے بہترین طریقے اور آسائشوں کے ساتھ گزار سکتے ہیں۔ وہ تو اس راستے ﴿دنیا﴾ کو راستہ ہی جانتے ہیں اور نظر صرف اور صرف منزل پر ہوتی ہے۔ ۔ ۔

لیکن لوگ اپنی ذات، اپنے مقصد کے ساتھ ساتھ اس راستے کو بھی بھلا دیتے ہیں اور جس طرف کو ان کے قدم اٹھتے ہیں اسی طرف کوہی ہو جاتے ہیں، یہ جانے کے بغیر کے یہ راستہ کس منزل کی طرف لے جا رہا ہے۔ شاید ہم سب کسی خضر کے منتظر ہیں جو ہمیں راہ بتلائے، ہمارا ہاتھ پکڑ کر ہمیں کسی راہ پہ چلائے۔ حلانکہ اس امت کے لیئے توکامل احکامات آج سے چودہ سو سال پہلے نازل ہو چکے ہیں، ہمیں راستہ دکھا دیا گیا ہے، اب ضرورت ہے تو اپنی اپنی بصارت کو جگانے کی، خود کو پہچاننے کی۔ راستہ تلاشنے کی نہیں، کیونکہ وہ تو ہمارے سامنے ہے، ضرورت ہے صرف اس پر چلنے کی، ضرورت ہے تو اپنا آپ پہچاننے کی۔

فرش پر کھنچی اُس ایک لائن نے مجھے یہ ایک بات سمجھا دی، اور آپ کو؟


*****


اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔


1 comments:

  1. very niceاور ہمیں آپکے لکھے نے وہ سب سمجھا دیا۔۔۔۔

    ReplyDelete