Pages

Subscribe:

Friday, March 30, 2012

لاہور، لاہور اے

لاہور، لاہور اے

اشتہار: کہتے ہیں ”جن نے لاہور نئیں تکیا او جمیا ای نئی،“ اور ”لاہور، لاہور اے،“ اور ”زندہ دلانِ لاہور،“ اور اور بہت کچھ۔ ۔ آخر ایسا بھی کیا ہے لاہور میں۔ ۔ ۔۔ کیا وہاں انسانوں کی کوئی ’وکھری‘ نسل بستی ہے یا وہاں زندگی نے ہی اتنے رنگ بکھیر رکھے ہیں ان رنگوں کی چکاچوند میں لوگ اتنے کھو جاتے ہیں کہ لاہور کو ہر روز کسی نئے خطاب سے نوازا جاتا ہے۔
یہ جاننے کے لیے آئیے میرے ساتھ لاہور کی سیر کیجیئے۔

٭٭٭

السلام علیکم ساتھیو! آپ سب کو جشنِ آزادی بہت بہت مبارک ہو۔ اور ہم اپنے اس سفر کا آغاز اس دعا کے ساتھ کرتے ہیں کہ اللہ پاک ہماری اس سرزمین کو اندرونی اور بیرونی قوتوں کے شر سے نجات دلائے اور اپنی حفظ و امان میں رکھے۔ آمین۔
بادشاہی مسجد کی اس پر وقار عمارت میں جشن آزادی کے دن نماز کا اپنا ہی ایک لطف ہے۔ یقیناً ایسا کرنے سے آپ کی آزادی کے جشن کا لطف دوبالا ہو گیا ہو گا۔ اب ہم یہاں قریب میں واقعہ علامہ اقبال کے مقبرے پر فاتحہ خوانی کریں گے۔ اور اس بیچ میں آپ کو لاہور کی تاریخ سے کچھ متعارف کروا دوں۔
لاہور؛ جو آج کے پاکستان کا ایک اہم شہر ہے، کی تاریخ صدیوں پرانی ہے۔ لاہور جس کا شمار پاکستان کے قدیم شہروں میں ہوتا ہے جغرافیائی لحاظ سے 19،00،22 طول بلد اور 31،00،50 عرض بلد پر واقع ہے تہذیبی، تمدنی اور ثقافتی لحاظ سے ہمیشہ مرکزی حیثیت حاصل رہی ہے۔ اس کی طویل تاریخ ماضی کے سحر میں گُم ہے اور اس کی ابتدائی تاریخ کے بارے میں صرف اور صرف روایات اور قیاس ملتے ہیں مگر عام طور پر یہ کہا جاتا ہے کہ راجہ رام چندر جی ( 1200ق م ۔ 800ق م ) کے دو بیٹے تھے ایک کا نام “ قصوہ “ تھا جس نے قصور کی بنیاد رکھی اور دوسرے کا نام “ لوہ “ تھا جس نے لاہور بسایا۔ شروع مین اس شہر کا نام “ لہور “ تھا جو آہستہ آہستہ لاہور بن گیا۔ اس تاریخی روایت سے اس کا قدیم ہونا ازخود واضح ہو جاتا ہے۔
لاہور کی شان و شوکت کو مغلوں نے اپنے حسن ذوق سے چار چاند لگا دیئے، کہ یہ لوگ آرکیٹیکچر کے بڑے ماہر اور نہایت باذوق تھے۔ بادشاہی مسجد اس کی سب سے بڑی مثال ہے۔ پھر انگریزوں کے تسلط کے بعد مغلوں کے فنِ آرکیٹیکٹ میں وکٹورین آمیزش بھی شامل ہو گئی، اور اس دور میں تعمیر کی جانے والی عظیم الشان عمارتوں میں لاہور ہائی کورٹ اور قلعہ کے نزدیک واقعہ عالمگیری گیٹ شامل ہیں۔ لاہور کی خوبصورتی اور شان و شوکت نے اپنا سحر صرف چند مغلوں یا فارسیوں پر ہی نہیں چلایا بلکہ انگریز ادباء بھی اس سحر سے خود کو بچا نہ سکے۔ انگریزی کلاسیکس کا مانا ہوا شاعر ٰجان ملٹنٰ جس نے تاریخ کی مشہور ترین ایپک Paradise Lost لکھی، اس نے لاہور کی شان میں "Agra and Lahore, the Seat of Great Mughal" بھی لکھی ڈالی۔
اگر تحریک آزادی میں لاہور کا کردار دیکھیں تو ہم اسے سراہے بغیر نہ رہ پائیں گے۔ گانگریس پارٹی کے اجلاس کا مرکز یہی شہر تھا۔ اور اس شہر کی جیل نے بھی کئی باب بند کیئے اور کئی بابوں کا آغاز بھی کیا۔ سردار بھگت سنگھ اپنے ساتھیوں کے ساتھ لاہور کی جیل میں قید رہے جہاں انھوں نے ساٹھ سے بھی زیادہ دن تک کھانا پینا ترک رکھا، اور اسی شہر میں بھگت سنگھ کا باب بند کر دیا گیا، انہیں پھانسی دے دی گئی۔ پاکستان مسلم لیگ کا وہ جلسہ جس میں قائد نے دو قومی نظریہ پیش کیا اور ایک آزاد ریاست کی بنیاد رکھی، اسی شہر میں وقوع پذیر ہوا۔ اس شہر میں بے پناہ مقامات اور چیزیں ہیں جو دیکھنے سے تعلق رکھتی ہیں۔ جن میں سے پہلی تو یہ لیں
علامہ اقبال کا مقبرہ، جو بادشاہی مسجد سے جنوب مشرق کی طرف حضوری باغ میں مقیم ہے۔ یہ جگہ محب وطن اور ادب سے شغف رکھنے والےلوگوں کے لیئے ایک نہایت ہی پرکشش مقام ہے۔ کہتے ہیں لوگ چلے جاتے ہیں لیکن ان کا کام رہ جاتا ہے، اور کبھی کبھی یہ کام اتنے عظیم ہوتے ہیں کہ ایسی عظیم الشان عمارتیں اس عظمت کی گواہ بن جاتی ہیں۔ علامہ اقبال کا مقبرہ بھی ایک ایسی ہی عمارت کی مثال ہے۔ یہ عمارت افغانستان کی طرف سے تحفے میں دیئے گئے مہنگے ترین سرخ پتھر سے تعمیر گی گئی۔ حیدر آباد کے ایک مشہور و معروف آرکیٹیک نے اس کا آرکیٹیکچر مغلیہ رواج کے خلاف جا کر افغانی طرز پر رکھا۔
چند سیاسی اختلافات کی بناء پر اس مقبرے کو مکمل ہونے میں 13 سال کا عرصہ لگا۔
علامہ اقبال کے مقبرے سے اب ہم سیدھے چلیں گے اس بلند و بالا عمارت کی طرف۔ اس عمارت کے غرور و تکبر کا کیا کہیئے کہ اسے دیکھنے میں ہی ہماری گردنیں فخر و غرور سے تن جاتی ہیں، اور دل خود بخود ان لوگوں کے لیئے جنہوں نے اس عمارت کو ایسے تن کر کھڑے ہونے کی وجہ دی، کے سامنے جھک کر ان کی دلیری اور عزم کو سراہتا ہے۔
جی آپ کے سامنے ہے یہ بلند و بالا، پاکستانیوں کے عزائم کی بلندیوں کو ظاہر کرتی عمارت، مینارِ پاکستان۔ اقبال پارک میں موجود یہ 60میٹر بلند عمارت ہمیں 1940 کی ایک عظیم قرارداد کی یاد دلاتی ہے۔
مغلیہ دور میں بنی اس عمارت کی بالائی منزل پر پہنچ کر اس وقت طلوعِ آفتاب کا نظارہ زندگی کے یادگار لمحوں میں سے ایک ہو گا۔
اب اسی مینار کے دامن میں بیٹھ کر آپ کو اندرونِ لاہور کا نہایت ہی اہم پہلو دکھا دوں۔
کہتے ہیں ناشتہ دن کا سب سے اہم کھانا ہوتا ہے اور اچھا ناشتہ ایک اچھا دن بناتا ہے۔ تو آپ کے اس دن کو بہترین بنانے کے لیئے ہمارے پاس آپ کے لیئے بہترین چیز ہے اور وہ ہے لاہور کا یہ روائتی ناشتہ۔ روائتی ایسے کہ سلائس پر جیم اور بٹر لگا کر ناشتہ کرنے والے کیا جانیں کے اصل ناشتہ ہوتا کیا ہے۔
اگر لاہور میں ناشتے کی مخصوص چیزوں کی بات کریں تو اس میں حلوہ پوری، شاہی پٹھورے، نان چنے، بونگ پائے اور سری پائے نان کے ساتھ، نہاری اور ایک گلاس لسی۔ یہ لاہوریوں کا ہی نہیں بلکہ لاہوری سیاحوں کا بھی دلعزیز ناشتہ ہے، جو اب آپ کی خدمت میں حاضر ہے۔ایسے ناشتے کے بعد تو دل کرتا ہے کہ لمبی تان کر سو جاوٴ لیکن ابھی ہمیں اپنے سفر کو آگے بڑھانا ہے اور اس کے ساتھ ہی چلتے ہیں اپنی اگلی منزل کی جانب۔
اس وقت سورج نے تمام شہر کو اپنے نور کی گرفت میں لے لیا ہے۔ اب یہاں سے ہم پیدل چل کر واپس بادشاہی مسجد کی طرف جائیں گے اور اس کے کونے کونے میں کندہ تاریخ کو کھوجنے کی کوشش کریں گے۔ جنوبی ایشیاء کی یہ دوسری بڑی مسجد ہے جو اپنے بازو پھیلائے لاکھوں کروڑوں، ملکی اور غیر ملکی سیاحوں کو اپنی آغوش میں لے لیتی ہے اور ان کو تاریخ کے ایسے ایسے باب دکھاتی ہے جن کی مثال ملنا نہایت مشکل ہو۔ اس مسجد کے دامن مین بیک وقت ایک لاکھ سے زائد مسلمان نماز ادا کر سکتے ہیں۔ مغل حکومت کے چھٹے بادشاہ اورنگزیب نے اس مسجد کی تعمیر کا حکم صادر کیا اور یہ مسجد 1671 سے 1673 کے مختصر ترین عرصے میں معرضِ وجود میں آئی۔ مغلیہ حکومت کے سپوت کے دور میں بنائی گئی اس مسجد کا خوبصورت آرکیٹیکچر مغلوں کے حسنِ ذوق کی ایک اور سند ہے۔ اس کی تعمیر سرخ پتھر سے کی گئی اور اس کے چار میناروں کی لمبائی 4.2 میٹر ہے جو مقابلے میں تاج محل کے میناروں سے بھی زیادہ ہے۔
قدیم تاریخی آثار اور پُرشکوہ عمارتوں کی اپنی ایک سحر انگیز داستان ہے جو اس زمانے کے ماہرین تعمیر نے اپنے فن اور صلاحیتوں سے زندہ رکھی ہے۔ قدیم عمارتوں سے اس زمانے کی تہذیب کے جاہ و جلال حکمرانی کے انداز شہنشاہیت کے دبدبے اور طاقت وجبروت کا اندازہ ہوتا ہے۔
شاہی قلعہ لاہور جو مغلوں کے فنِ تعمیر کا ایک بے نظیر شاہکار ہے جو انہوں نے اپنے رہائشی مقاصد کے لیے تعمیر کروایا مگر ساتھ ساتھ فوجی مقاصد کو بھی مدِنظر رکھا گیا۔ اس کی باقاعدہ بنیاد 1566ء میں مغل بادشاہ جلال الدین اکبر نے رکھی۔ اس کی لمبائی 466 میٹر اور چوڑائی 370 میٹر ہے۔ اس کی شکل تقریباً مستطیل ہے۔ دیواریں سرخ پختہ اینٹوں سے بنی ہوئی ہیں جن کی چنائی مٹی گارے سے کی گئی ہے۔
شاہی قلعہ کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا تھا۔ ایک انتظامی استعمال کے لیئے اور ایک نجی استعمال کے لیئے۔ انتظامیہ کے زیرِ استعمال حصے میں داخلی حصہ، باغات، دولت خانہ خاص و عام ﴿اکبری محل﴾ اور دیوانِ عام تھے۔ موتی مسجد بھی جو شاہی قلعہ میں تعمیر کی گئی، عام استعمال میں آتی تھی۔ اس حصے کی رسائی عالمگیری دروازے سے گزر کر ہوتی تھی۔ جو حصہ ذاتی استعمال میں تھا وہ قلعہ کے جنوبی حصہ میں واقعہ ہے اور جس تک رسائی ٰہاتھی دروازےٰ سے گزر کر ہوتی تھی۔ اس حصہ میں شیش محل ﴿شیشوں کا محل﴾، نولکھا پیویلین، مکتب خانہ،
خلوت خانہ، احاطہ جہانگیری، خوابگاہیں، عجائب گھر، کچھ حویلیاں، شاہی حمام اور چند باغات شامل ہیں۔
لاہور قلعہ میں موجود ایک ایک جگہ دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے لیکن شیش محل کی تو بات ہی اور ہے۔ وہاں دیواروں پر بہت سے چھوٹے چھوٹے لیکن لا تعداد شیشے نصب ہیں۔ جن کے بارے میں مشہور ہے کہ ہر شیشہ آپ کا پورا عکس دکھائے گا۔ اور رات کے وقت اس جگہ کو روشن کرنے لیئے فقط ایک موم بتی ہی کافی ہے۔ لاہور کے قلعہ کی بھول بھلیاں کسی کو بھی اپنے سحر سے جلد آزارد ہونے نہیں دیتیں لیکن ہمیں ابھی اپنا سفر جاری رکھنا ہے۔ اس لیئے آئیں اب آگے بڑھیں۔
یہ سارا لاہور جو اب تک ہم دیکھ چکے ہیں یہ ساری جگہیں اندرون شہر میں آتی ہیں۔ ادرون مطلب اندر۔ تو سوال یہ ہے کہ یہ سب کس کے اندر ہے۔ تو جناب میں آپ لوگوں کو بتاتی چلوں کہ لاہور کو "walled city" بھی کہا جاتا ہے کیونکہ اس تاریخی، تہذیبی اور ثقافتی شہر کو مختلف ادوار میں کئی خطرے لاحق ہوئے جن میں اس کی ثقافت اور تاریخ کھوجانے کا ڈر تھا۔ دفاعی مقاصد کو زیرِ نظر رکھتے ہوئے اس شہر کے لیئے ١۳ محافظ دروازے کھڑے کر دیئے گئے۔ جو اس شہر کے ساتھ ساتھ اس کے تہزیب و تمدن کے بھی محافظ ہیں۔
ان دروازوں میں سب سے پہلے ہم بات کرتے ہیں
1. روشنی گیٹ کی، یہ شاہی محل کے علاقے میں واقعہ ہے جسے شاہی محلہ بھی کہا جاتا ہے۔ شاہی مسجد اور شاہی محلہ کو یہ نام شاہی قلعہ کے بعد دیا گیا۔ اس دروازے کے گرد کھانے پینے کی کئی دکانیں ہیں، آپ کہہ سکتے ہیں اس دروازے پر ایک منی فوڈ سٹریٹ قائم ہے۔
2. بھاٹی گیٹ کو یہ نام راجپوت قبیلے کے بھٹیوں کے نام پر دیا گیا۔ یہاں کا مشہور ترین بازات حکیم والی بازار ہے اور یہ نام یہاں پر موجود حکیموں کی بہت سی دکانوں کی مناسبت سے دیا گیا۔ علامہ محمد اقبال کی رہائش بھی بھٹی گیٹ پر ہی تھی۔ یہاں کے لوگ بھی کھانے پینے کے نہایت شوقین ہیں اور یہاں کے لوگوں کا من پسند کھیل ٰکُشتیٰ ہے۔
3. موری گیٹ باقی تمام دروازوں سے نسبتاً چھوٹا ہے لیکن یہاں مچھلی کی ایک بہت بڑی مارکیٹ ہے، اور لاہور کے بہترین فرنیچر اور فرنیچر پالش کی دکانیں بھی یہاں پائی جاتی ہیں۔
4. لاہوری گیٹ بھی ان دروازوں میں سے ایک ہے۔ لاہور کی سب سے بڑی آپٹیکل مارکیٹ اسی دروازے کے نزدیک ہے۔ قطب الدین ایبک کا مقبرہ بھی اسی دروازے پر ہے جو انارکلی بازار کے ساتھ ملحقہ ہے۔
5. شاہ عالم گیٹ کا نام شاہ عالم بہادر شاہ ظفر کے نام پر رکھا گیا۔ یہاں لاہور کی سب سے بڑی الیکٹرانکس کی مارکیٹ موجود ہے۔ اس کے علاوہ رنگ محل اور سوا بازار جیسے بڑے بازار بھی اسی دروازے میں واقعہ ہیں۔ رنگ محل شادی کے لہنگوں اور دیگر ملبوسات کے لیئے بہت زیادہ مشور ہے اور سوا بازار سونے اور زیورات کی سب سے بڑی مارکیٹ ہے۔ اس کے علاوہ سنہری مسجد اور لال مسجد بھی اس دروازے کی اہمیت کو چار چاند لگا دیتی ہیں۔
6. موچی دروازے کا نام موتی لفظ کے بگاڑ کے بعد رکھا گیا۔ پنڈت موتی رام کے نام سے جانے جانا والا یہ دروازہ مسلمانوں کے تسلط میں موتی سے موچی بن گیا۔ اس دروازے کے بازاروں پھلوں اور آتش بازی کی مارکیٹ مشہور ہیں۔
7. اکبری گیٹ کو یہ نام جلال الدین محمد اکبر کے نام پر دیا گیا۔ اسی گیٹ پر ٰاکبری منڈیٰ ہے جہاں سب سے بڑے پیمانے پر ہر قسم کا اناج فروخت کیا جاتا ہے۔
8. دہلی دروازہ اسے اس لیئے کہا جاتا ہے کیونکہ یہ دروازہ دہلی سے لاہور آنے والی سڑک پر بنایا گیا۔ یہاں کپڑوں کی ایک بہت بڑی مارکیٹ ہے۔
9. یکی گیٹ جو کہ پہلے زاکی گیٹ کے نام سے جانا جاتا تھا۔ یہ نام اسے ایک صوفی کے نام پر دیا گیا جو تاتاریوں کے خلاف لڑتے ہوئے شہید ہوئے تھے جب انہوں نے لاہور پر حملہ کیا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ دورانِ جنگ ان کا سر تن سے جدا کر دیا گیا تھا لیکن آپ ﴿صوفی﴾ کا جسم سر قلم ہونے کے چند لمحوں بعد تک بھی لڑتا رہا۔ ان کا ایک مزار اس جگہ قائم ہے جہاں ان کا سر گرا تھا اور دوسرا وہاں جہاں ان کا دھڑ گرا۔ یکی گیٹ کے گرد بہت سی حویلیاں اور مندر بھی قائم ہیں۔
10. شیراں والا گیٹ پہلے خضری گیٹ کے نام سے بھی جانا جاتا تھا۔ یہ نام اسے ایک صوفی بزرگ خض الیاس کے نام پر ملا۔ اس کے بعد رنجیت سنگھ نے اس جگہ پر دو شیروں کو پنجرے میں قید کر کے رکھا جس کی وجہ سے اس کا نام شیراں والا گیٹ پڑ گیا۔
11. کشمیری گیٹ کا نام اس دروازے کا رخ کشمیر کی طرف ہونے کی وجہ سے رکھا گیا۔ یہاں بچوں کے جوتوں کی ایک بڑی مارکیٹ اور لڑکیوں کے لیئے ایک نہایت ہی خوبصورت کالج بنایا گیا ہے، جو کہ شاہوں کی حویلیوں میں سے ایک حویلی میں ہے۔
12. مستی گیٹ کا نام مسجدی گیٹ کے بگاڑ سے پڑا۔ اس کے گرد رہنے والے لوگ بھی کھانے پینے کے کافی شوقین ہیں۔
13. ٹیکسالی گیٹ کا نام لفظ ٹیکسال سے پڑا۔ اس دروازے پر ایک مشہور جوتوں کا بازار ٰشیخوپوریاں بازارٰ واقعہ ہے۔ یہاں کے لوگ بھی کھانے پینے کے بہت شوقین ہیں۔ اور مشہور پھجے کے سری پائےٰ، اور ٰتاج محلٰ والوں کی مٹھائی کی دکان بھی اسی دروازے پر ہے۔
یہ تو ہم نے آپ کو دکھا دیئے لاہور کے وہ ١۳ محافظ جو ہمہ وقت اس خوبصورت شہر کی حفاظت میں لگے رہتے ہیں اور آج کل کے غافل انسانوں کا کام بھی خود ہی انجام دے رہے ہیں۔ اب یہاں سے نکل کر چلتے ہیں اندرونِ شہر ہی کی ایک اہم ترین جگہ پر۔ اندرون لاہور کو خداحافظ کہنے سے پہلے ہم یہاں پر موجود دربار اور مقبروں پر حاضری دیں گے اور فاتحہ خوانی کریں گے۔
تو جی اس میں سب سے پہلے چلے چلتے ہیں حضرت سید ابوالحسن علی بن عثمان الجلابی الهجویری الغزنوی کے دربار پر جسے ٰداتا دربارٰ کہا جاتا ہے۔ آپ کا شجرہ نصب افغانیوں سے ملتا ہے۔ حضرت نہ صرف ایک بلند پایہ صوفی بلکہ ادیب اور سکالر بھی تھے۔ ان کی کتاب ٰکشف المعجوبٰ تاریخِ ادب میں اپنی مثال آپ ہے۔ یہ کتاب فارسی میں لکھی گئی تھی جس کا بعد میں کئی زبانوں میں ترجمہ کیا گیا۔
ان کے علاوہ یہاں اور بہت سے صوفی لوگوں کے مقبرے ہیں جن کا ہر سال بڑے جوش و خروش سے عرس منایا جاتا ہے جن میں مادھو لال حسین کا عرس قابلِ ستائش ہے۔ شاہ صاحب بھی ایک ادیب تھے اور قافیاں لکھا کرتے تھے۔ ان کی یاد میں ہر سال ایک میلا لگتا ہے جسے ٰمیلا چراغاںٰ کہا جاتا ہے۔
صوفیوں کے مقبرے کے علاوہ اس شہر میں کافی تاریخی ہستیوں کے مقبرہ جات بھی ہیں جس میں جہانگیر کا مقبرہ سر فہرست ہے، جسے جہانگیر کی ملکہ نور جہاں اور بیٹے شاہ جہاں نے تعمیر کروایا۔ ملکہ نور جہاں کا مقبرہ، یہ وہ ملکہ ہیں جن کے نام کو مغلیہ دور میں سکوں پر چھپنے کا شرف حاصل ہوا۔
شاہدرہ روڈ پر جہانگیر کے مقبرے کے مقابل قطب الدین ایبک کا مقبرہ ہے، جن کی وفات پولو کھیلتے ہوئے گھوڑے سے گرنے کی وجہ سے ہوئی تھی۔
آصف خان جو شاہ جہاں کی ملکہ ارجمند بانو کے والد تھے کا مقبرہ بھی اس تاریخ کے محافظ شہر لاہور میں ہی ہے۔
ہممم میرا خیال ہے اب اندرون لاہور کو خدا حافظ کہہ ہی دیتے ہیں ورنہ اس کی تاریخ اور ان پرانی عمارتوں کا سحر تو اپنے شکنجے سے کبھی نہیں چھوڑتا۔ لیکن پھر بھی زندگی اور انسان دونوں ہی کبھی کہیں نہیں رکتے۔ تو اب چلتے ہیں اپنی اگلی منزل کی جانب۔ دوپہر کا وقت ہے اور آپ سب لاہور کے کھانوں سے تو بخوبی آگاہ ہیں، بھوک تو لگ ہی رہی ہو گی۔ لیکن کیا ہے کہ کھانے سے پہلے آپ کو ذرا صاف ستھرا ہونا پڑے گا۔ کھانا نہا دھو کر ہی ملے گا۔ اب اگر سوال یہ ہے کہ نہائیں کہاں تو خواتین کو تو ضرورت نہیں البتہ مرد حضرات کے لیئے اس سے بہتر جگہ اور کیا ہو سکتی ہے۔
ساری دنیا کے سویمنگ پولز ایک طرف اور لاہوریوں کا یہ پول ایک طرف۔ یہ نہر لاہور میں ایک نعمت ہے اللہ پاک کی طرف سے۔ آپ سب جانتے تو ہیں کہ آج کل کیا حالات ہیں پاکستان میں گرمی اور بجلی کے۔ ایسے میں لاہوریوں کا یہ سدا بہار اے سی ہی ان کو سکون کی چند گھڑیاں فراہم کرتا ہے۔ اس نہر میں ذرا دو چار ڈبکیاں لگا لیں آپ اس کے بات آپ کو یہاں کے کسی سایہ دار، سر سبز باغ میں بٹھا کر کھانا کھلاتی ہوں اور ساتھ ساتھ مزید لاہوری معلومات بھی بہم پہنچاتی ہوں۔
لیں جی نہا دھو کے اب ہم یہاں سے سیدھا چلتے ہیں شالامار باغ۔ وہاں بیٹھ کر ہم کھانا بھی کھائیں گے اور میں آپ کو لاہور کے مزید پارکس کے بارے میں بھی بتاوٴں گی۔ ویسے مجھے ریس کورس زیادہ پسند ہے۔ لیکن کیونکہ شالامار باغ کی تاریخی حیثیت زیادہ ہے اس لیئے یہی زیادہ مناسب ہے۔ ریس کورس نہ جانے کی ایک اور وجہ بھی ہے جس کا تذکرہ میں تھوڑی دیر میں کروں گی۔ اور کھانا کھانے اور تھوڑا آرام کرنے کے لیئے یہ شہنشاہی جھروکوں والی جگہ کیسی ہے۔ ۔ ۔۔
اور اب ایسی شاہی اور پرسکون جگہ پر بیٹھ کر خود کو شہزادے اور شہزادیاں سمجھ کر اب لاہوری شاہی کھانا آپ کی خدمت میں حاضر ہے۔
کھانا کھانے کے لیئے لاہور میں بے تحاشا جگہیں ہیں۔ ہر گلی نہیں تو ہر علاقے کی ضرور کوئی نہ کوئی خاصیت ہے۔ ہر کلاس کے لوگوں کے لیئے جگہیں الگ الگ لیکن ذائقہ ایک سے بڑھ کر ایک۔ کبھی کبھی کسی ریڑھی والے سے لے کر کھائی ہوئی بریانی اتنی لذیذ ہوتی ہے کہ اس کا مقابلہ کسی بڑے ہوٹل کی بریانی بھی نہ کر پائے۔
اب بات یہ کہ اتنے سارے ہوٹلز اور ریستوران چھوڑ کر میں آپ کو ایک باغ میں بٹھا کر کھانا کھلا رہی ہوں، وہ کیوں۔ ۔ ۔؟ تو جناب وجہ یہ ہے کہ ایک ہوٹل میں بیٹھ کر تو آپ کو سب وہاں کا ہی کھانا پڑے گا نا۔ یہاں اس باغ میں ایک قدرتی ماحول اور دوسرا اتنا مختلف مینیو۔ تو یہ لیں جناب دوپہر کے کھانے میں ہمارے پاس ہے بریانی، چکن کڑاہی، مٹن کڑاہی، حلیم، بُندو خان کے مشہور پراٹھا کباب، اور جو لوگ ایسا کھانا پسند نہ کریں ان کے لیئے چائینیز کھانا اور برگرز وغیرہ بھی حاضر ہیں۔ اب آپ تصور کریں کہ آپ مغلوں کے اس خوبصورت کے شاہکار باغ، شالا مار باغ میں راجاوٴں مہاراجاوٴں اور خواتین شہزادیوں کی طرح شان سے اپنا لنچ نوش فرما رہی ہیں۔ ایسا ہیوی کھانا کھانے کے بعد اگر آپ میں کوئی ہلکی پھلکی واک کرنا چاہے تو بھی کر لے اور جو ذرا سستانا چاہے وہ بھی کر لے۔
اور اس دوران میں آپ کو لاہور کے باقی پارکوں اور باغوں سے آگاہ کرتی ہوں۔ ویسے تو چھوٹے چھوٹے ہوٹلوں کی طرح لاہور میں پارک بھی بے شمار ہیں۔ ہر علاقے کا اپنا ایک چھوٹا صحیح لیکن پارک ضرور ہوتا ہے۔ اور اگر مشہور پارکوں کی بات کریں تو ان میں کئی قسمیں آ جاتی ہیں۔ آپ حیران ہو رہے ہوں گے کہ پارکوں کی قسمیں۔ ۔ ۔؟ تو میں آپ کو بتاوٴں کہ لاہور کے ہر نام ور اور بڑے پارک میں آپ اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ جانے کی غلطی نہیں کر سکتے۔ اگر آپ اپنی فیملی کے ساتھ کسی پارک کی تفریح کے لیئے جانا چاہتے ہیں تو اس کے لیئے مناسب پارکس نیشنل پارک، گلشن اقبال پارک، منٹو پارک، شالا مار باغ، حضوری باغ، سوزو واٹر پارک اور جلو پارک قدرے بہتر جگہیں ہیں۔
لیکن نواز شریف پارک، جناح پارک ﴿لارنس گارڈن﴾ اور ریس کورس جانے سے پہلے فیملی کو گھر ڈراپ کر آئیں۔ ۔۔ کیوں؟
وجہ تو بس میں یہی بتا سکتی ہوں کہ یہ پارک بہت بڑے ہیں، سر سبز ہیں، یہاں کافی زمانہ آتا ہے اور زمانہ بڑا خراب ہے۔
نہانے دھونے، کھانے پینے، اور باغوں کی تفریح کے بعد اب کیوں نہ آپ سب کا طبی معائنہ بھی کروایا جائے۔ تو اس کے لیئے اگر ہسپتالوں کی بات کریں تو ہسپتالوں کی بھی بھرمار ہے لاہور میں۔ سرکاری اور غیر سرکاری ہر طرح کے پسپتال اور کلینک یہاں جگہ جگہ پائے جاتے ہیں جن میں سے چند چیدہ چیدہ ہسپتالوں میں میو، سروس، گنگا رام، جنرل، جناح، شیخ زید، شوکت خانم، فاطمہ میموریل، پنجاب کارڈیالوجی اور شالامار ہسپتال شامل ہیں۔ ویسے تو لاہور کا مینٹل ہاسپٹل بھی قابلِ تعریف ہے۔ تو اگر آپ کو کسی کی بھی ذہنی حالت پر شبہ ہو تو بلا جھجک آپ اسے اس ہسپتال میں لے کر جا سکتے ہیں۔
ویسے تو تفریح کے وقت پڑھنے پڑھانے کی باتیں اچھی نہیں لگتیں لیکن کوئی ٹورسٹ تعلیم لیئے لاہور کی خدمات جانے بغیر چلا جائے تو یہ تو بہت شرمندگی بات ہو گی۔ لاہور میں اداروں کی بات کرتے ہی جس پہلے انسٹیٹیوٹ کا نام آتا ہے وہ ہے پنجاب یونیورسٹی، یونیورسٹی آف انجینئرنگ اور ٹیکنالوجی، گورنمنٹ کالج جو اب یونیورسٹی بن چکا ہے، فورمین کرسچیئن کالج، یونیورسٹی آف لاہور،
لاہور یونیورسٹی آف مینیجمنٹ سائینسز ﴿LUMS﴾ ایچیسن کالج، نیشنل کالج آف آرٹس، کنیئرڈ کالج، لاہور کالج اور میڈیکل کالجز میں کنگ ایڈوڑ اور فاطمہ جناح میڈیکل کالج قابلِ ذکر ہیں۔ ان کے علاوہ بے شمار سرکاری اور غیر سرکاری ادراے تعلیم کے فروغ میں اپنا اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔
اب یہاں سے ہم چلیں گے واہگہ بارڈر دیکھنے۔ ویسے وہاں پر تو غروبِ آفتاب کے وقت روز ہی ایک تقریب کا سماں ہوتا ہے لیکن جشنِ آزادی کے دن تو وہاں بھی خوب رونق ہو گی۔ واہگہ بارڈر جو کہ ہندوستان اور پاکستان کے بیچ ایک حد ہے، پر جشنِ آزادی کے روز فلیگ لووٴرنگ سیریمنی یعنی پرچم اتارنے کی تقریب ہو گی۔ یہاں روز ہی پرچم کو اتارنےکی تقریب دونوں طرف بیک وقت ہی شروع ہوتی ہے۔ اپنے اپنے گیٹ کے اس بار کھڑے سپاہی غرور، تکبر اور جوش کا ایک پیکر ہوتے ہیں۔ پریڈ کرتے ہوئے ان کے قدموں سے آنے والی آواز جیسے مخالف کو ایک تنبیہہ ہوتی ہے کہ ہم اپنےملک کے دفاع اور اس کی عزت اور سر بلندی کا حوصلہ رکھتے ہیں۔ دیکھنے والوں کے لیئے منظر یقیناً کسی فُل ٹائم اینٹرٹینمنٹ سے کم نہیں۔
آئیں اب آپ کو لاہور کا ایک اور اہم ترین پہلو دکھانے لے چلوں۔ خواتین میں تو وہ پسندیدہ ہے ہی لیکن مرد حضرات بھی کبھی پیچھے نہیں رہے۔ تو آئیں اب چلتے ہیں کچھ شاپنگ کرنے۔ جو مرد حضرات شاپنگ پسند نہیں کرتے وہ اتنی دیر میں قذافی سٹیڈیم یا الحمرا آرٹ ہال سے ہو آئیں۔ شاید وہاں ان کا وقت قدرے بہتر گزرے، لیکن اگر وہ شاپنگ کے لیئے بھی آنا چاہیں تو کوئی اعتراض نہیں۔
لاہور میں شاپنگ، ایک بہت ہی سوچ و بچار والا عمل ہے۔ کیونکہ آپ کے پاس اتنے آپشنز ہوتے ہیں کہ سمجھ ہی نہیں آتی کہاں سے شاپنگ کریں۔ سب سے مشہور تو انار کلی بازار ہے جہاں سے آپ ہر طرح کی چیز خرید سکتے ہیں، کیونکہ وہ بازار کافی بڑا ہے اس لیئے اپنے مطلب کی چیز ڈھونڈنے میں ذرا محنت کرنی پڑتی ہے لیکن آخرکار مل ہی جاتی ہے۔ اس کے بعد لبرٹی، پیس، صدیق ٹریڈ سنٹرز، ڈیفنس اور گلبرگ کے شاپنگ سنٹرز سے عمدہ چیزیں شاندار قیمتوں پر دستیاب ہوتی ہیں۔ اوریگا خواتین کے کپڑوں کے لیئے بہت ہی بہترین مارکیٹ ہے جہاں ان سِلا کپڑے کی بہتات ہوتی ہے۔ ورائٹی بے شمار لیکن قیمتیں مناسب۔ اس کے علاوہ اچھرہ اور رنگ محل شادی کے لہنگوں اور کپڑوں کے لیئے مشہور ہے۔ شہالمی سے باقی چیزوں کے ساتھ ساتھ آڑٹیفیشل جیولری کی بہت اچھی روائٹی مل جاتی ہے۔ سوا بازار گولڈ کے لیئے، بلال گنج مارکیٹ مشینری، سپیئر پارٹس اور چوری کا مال فروخت کرنے کے لیئے مصری شاہ لوہے کی سب سے بڑی مارکیٹ کے لیئے مشہور ہے۔
چلیں جی اب خریداری کرنے کے بعد سب لباس بدلیں گے، تھوڑا تیار شیار ہو کر اب ہم اپنے سفر کی آخری گزرگاہ سے گزریں گے، جو کہ اپنے نام کی ایک ہی ہے، اور اس کا جانا پہچانا سا نام ٰفوڈ سٹریٹٰ ہے۔
یہاں سے رات کا کھانا کھلا کر آپ کو بس رخصت دے دی جائے گی۔ فوڈ سٹریٹ نہ صرف لاہور بلکہ پورے پاکستان میں کھانے کی سب سے بڑی اور سب سے مشہور ترین سٹریٹ ہے۔ لاہور میں سیر و تفریح کے لیئے اگر آپ کبھی آئیں تو یہاں سے ہوئے بغیر نہ جائیں۔ کھانے کی اس قدر ورائٹی ہے کہ آپ بوکھلا جائیں گے کہ کیا کھائیں اور کیا نہ کھائیں۔
اب دن میں باقی کھانے تو ہم چکھ چکے لیکن لاہوری چرغہ کی کسر ابھی باقی ہے جو کہ لذت میں اپنی مثال آپ ہوتا ہے۔ باقی کھانا زیادہ تر تو چٹ پٹا اور مرچ مصالحے والا ہی ملتا ہے لیکن اب کچھ دکاندار کم نمک مرچ کھانے والوں کا خیال بھی رکھ لیتے ہیں۔ مرچ مصالحے کے بعد یہاں ٹھنڈے میٹھے پکوانوں کا بھی خوب دھیان رکھا جاتا ہے اور اس میں فالودہ مکس قلفہ کی تو کیا ہی بات ہے۔ یہاں سے آپ کا جو دل کرتا ہے کھائیں اور خوب کھائیں، اور یہ کہہ جاتے جاتے یہ کہہ جائیں۔ ۔ ۔ لاہور لاہور ہے۔
اور اس کے ساتھ ہی ہمارا لاہور کا اس سال کا سفر اپنے اختتام کو پہنچتا ہے۔ امید کرتی ہوں آپ سب نے انجوائے کیا ہو گا۔ حلانکہ لاہور کے بارے میں جو بتایا ہے وہ شاید ایک فیصد بھی نہ بنتا ہو، لیکن بس اپنی سی ایک کوشش تھی۔
شکریہ

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔


3 comments:

  1. This comment has been removed by the author.

    ReplyDelete
  2. قیمے کی ٹکیاں
    https://awazepakistan.wordpress.com

    ReplyDelete