Pages

Subscribe:

Friday, March 30, 2012

جو تھم جائے وہ زندگی نہیں

جو تھم جائے وہ زندگی نہیں


زندگی منسوب ہے
سانسوں کے چلنے سے
دلوں کے دھڑکنے سے
آہوں کے مچلنے اور
خوابوں کے سنورنے سے
سو جو تھم جائے۔۔
وہ زندگی نہیں۔۔


زندگی کیا ہے سوائے ایک مسافت کے۔۔ ایک ایسی مسافت جس کی منزل تو متعین ہے پر راہیں جُدا جُدا۔۔ انجان و خفا خفا۔۔ خفا یوں کہ جانے کب، کہاں وہ یک دم آپ سے اپنا ہاتھ چھڑا لیں اور آپ کو ایک نئی راہ کے حوالے کرنے میں ایک پل کو بھی نہ ہچکچائیں۔۔ اُن راہوں کو اس سے کوئی غرض نہیں کہ آپ کی زندگی کے وہ رنگ ڈھنگ، وہ دوست ساتھی جو آپ کے لیے بہت اہم ہوتے ہیں، اس کے ساتھ ہی پیچھے۔۔۔ کہیں بہت پیچھے رہ جاتے ہیں۔۔
کسی کو بھی اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ان راہوں پر چل کر آپ نے زندگی کو سمجھا ہوتا ہے، خود کی پہچان کی ہوتی ہے اور کئی دوستوں، کئی رشتوں کو پایا ہوتا ہے۔۔۔ اور پھر وہ سب پھول لمحے اور خوشبو باتیں۔۔ انہی راہوں کے ساتھ ہی آپ کو الوداع کہہ دیتی ہیں۔۔

اب آگے۔۔ نئی راہیں، نئی زندگی اور نئی باتیں آپ کی منتظر ہیں۔۔۔ ایک بار پھر ایک نیا امتحان آپ کے سامنے ہے۔ پھر سے آزمائش کی کئی کسوٹیاں آپ کے لئے تیار آپ کی منتظر کھڑی ہیں۔۔ بہت سے نئے چیلنجز آپ ان راہوں میں کھڑے آپ کو شکست دینے کو پوری طرح تیار کھڑے ہیں۔۔ اب پھر سے ایک نئی راہ سے ملنے والے تمام پھولوں اور کانٹوں کو چُن کر آپ نے اپنا دامن بھرنا ہے۔۔ اور آگے بڑھتے جانا ہے۔۔ بڑھتے جانا ہے۔۔۔۔

میں۔ ۔ ۔ ایک بار پھر ایک دو راہے پر کھڑی ہوں۔ میرے آگے ایک نئی دنیا، کئی نئے شب و روز، کچھ خوش رنگ بہاریں اور کچھ دلسوز خزایں مجھے اپنی بانہوں میں سمیٹ لینے کو تیار کھڑی ہیں۔۔ یہ سب مسکرا مسکرا کر مجھے دیکھتیں۔۔ مجھے اپنی اَور بلاتی ہیں، لیکن۔۔۔ کچھ ہے جو میرے قدم روکتا ہے۔۔
میں پلٹ کر دیکھوں تو معلوم ہوتا ہے کہ پچھلی راہوں کی یادیں۔۔ بہت سی باتیں۔۔ کچھ سردیوں کی ٹھنڈی بارشیں اور کچھ گرمیوں کی طویل دوپہروں میں گہرے نیلے سمندر کی وہ اٹکھیلیاں۔۔کچھ قہقہے تو کچھ آنسو۔۔ میرا پلو پکڑے، حسرت سے مجھے تک رہے ہیں۔۔ ان کی آنکھوں میں، اُن کے چہرے پر ایک بے یقینی اور ایک سوال ہے۔۔ کیا تم چلی جاؤ گی۔۔؟
ان کے اس سوال کی بازگشت مجھے اپنے وجود میں بھی کہیں سنائی پڑتی ہے۔۔

کیا میں چلی جاؤں گی۔۔؟ کیا واقعی میں چلی جاؤں گی۔۔؟

ہاں۔۔!! میں چلی جاؤں گی۔۔ مجھے جانا ہی ہے۔۔ ہر اس چیز اور انسان سے دور جو کبھی میری ہم نوا ہو کرتی تھی۔۔ ان سب سے کہیں بہت دُور۔۔ کسی نئی دنیا میں۔۔

اور اب جب میں جانے کے لیے تیار کھڑی ہوں تو ان سب کی طرف سے مجھے ایک تحفہ بھی پیش کیا گیا ہے۔۔ جب میں اس تحفے کی طرف دیکھتی ہوں تو مجھے معلوم ہوتا ہے کہ یہ ایک بہت ہی خوبصورت گُلدستہ ہے۔۔ اس میں ہر رنگ کے، میری یادوں کے کئی پھول ہیں۔۔ کچھ خوشبو دار لمحے بھی۔۔ غور سے دیکھوں۔۔ تو کچھ کانٹے بھی ہیں۔۔ آج تو وہ بھی مسکا رہے ہیں، جیسے کہہ رہے ہوں۔۔
"دیکھا! ہم نے ہی تو تمہیں یہ ہمت، یہ بہادری بخشی۔۔ اگر ہم تمہیں چھوٹی چھوٹی تکلیفوں سے گھائل نہ کیا کرتے تو آج اتنی بڑی تکلیف کیسے سہہ پاتیں۔۔؟" ان کی بات سن کر میرے ہونٹوں پر ایک زخمی سی مسکراہٹ آ جاتی ہے۔۔
اس گُلدستے میں وہ سب کچھ مقید ہے جو میں نے ان راہوں سے پایا۔۔ اس میں جِیا۔۔ اب رُخصت کا وقت آ گیا ہے۔۔ مجھے جانا ہے۔۔ میں ان سب سے منہ موڑتی ہوں اور آگے بڑھ جاتی ہوں۔۔۔

آگے۔۔ ایک نئی زندگی کو اپنا ہاتھ تھما رہی ہوں۔۔ آنکھیں نم ہیں۔۔ قدم بوجھل۔۔ دل پُر سوز۔۔ لیکن پھر جب میری نظر اس گُلدستے پر پڑی تو ہونٹوں اور آنکھوں میں ایک مسکراہٹ جگمگا اُٹھی۔۔۔ دل سے فوراً ایک آواز آئی۔۔۔
"میں نے کیا کھویا؟ کچھ بھی تو نہیں۔۔ اُس سب کو تو یادوں کے اس گُلدستے کی صُورت میں اپنے ساتھ لے تو آئی۔۔ سب میرے پاس ہی تو ہے۔۔" دل کی بات پر دماغ سرشار ہو گیا اور فوراً تمام وجود کو ایک خوشی کا پیغام ارسال کیا۔۔

اب میری چال میں اعتماد اور آنکھوں میں ایک چمک ہے۔۔

میں اس نئی زندگی کی نئی صبح کا سورج، اُگتا دیکھنے کے لیے تیار ہوں۔۔ اب میری نظر میں زندگی سے آنکھیں ملا کر چلنے کا حوصلہ موجود ہے۔۔ کیونکہ میرا ماضی میرا کل۔۔ اُس سے سیکھی جانے والی ہر بات، اُس کے لمحوں کی ہر یاد۔۔۔ مجھ سے چُھوٹی نہیں۔۔ میرے ساتھ ہے۔۔ اب میں زندگی کی راہوں پر آگے بڑھ رہی ہوں۔۔ اور مجھے سدا یونہی آگے بڑھنا ہے۔۔ کیونکہ
جو تھم جائے،،، وہ زندگی نہیں 

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔


2 comments: