خاموشی محوِ گفتگو ہے۔۔
کبھی کبھی ہمارے ارد گرد خاموشی اس قدر بڑھ جاتی ہے کہ پھر وہ ہم سے باتیں کرنے لگتی ہے۔۔ عجیب بات ہے نا، خاموشی اور بات چیت تو دو بر خلاف پہلوں ہیں، پھر یہ ایک کیسے ہو جاتی ہیں؟ خاموشی محوِ گفتگو کیسے ہو جاتی ہے۔۔
خاموشی میں انسان کا باطن اُس کے روبرو آ بیٹھتا ہے۔ پھر وہ ہمیں ہمارا اصل دکھاتا ہے، ہم کیا ہیں وہ بتاتا ہے، ہم اس سے بڑھ کر کیا ہو سکتے ہیں، اس کی امید جگاتا ہے۔۔ لیکن کبھی کبھی وہ آئینہ کی طرح ہمیں ہماری غلطیوں اور کوتاہیوں کی کریہہ صورت دکھا کر ڈراتا بھی ہے۔۔ یہی وہ مقام ہوتا ہے جب بہت سے لوگ اپنی حقیقت کا سامنا کرنے کی بجائے اس سے خوفزدہ ہو کر بھاگ نکلتے ہیں۔۔ پھر انہیں فرار کی تلاش ہوتی ہے جو انہیں خود سے بیگانہ کر دے۔ اس کے لیے وہ شور شرابے والی جگہوں کا رُخ کرتے ہوئے ایک ایسے ماحول کا حصہ بننا پسند کرتے ہیں جہاں کوئی خاموشی اُن کا اُن کے باطن سے دوبارہ کبھی متعارف نہ کروائے۔۔
خاموش لوگ خاموش پانیوں کی طرح گہرے ہوتے ہیں، جس میں اُترنا اور انہیں دریافت کرنا ایک کٹھن مرحلہ ہوتا ہے۔ وہ آسانی سے دوسروں پر آشکار نہیں ہوتے بلکہ اپنی ذات کو کسی راز کی طرح سنبھالے رکھتے ہیں۔۔ ایسے لوگوں کو دریافت کرنا گوہرِ نایاب ڈھونڈ لانے کے مترادف ہوتا ہے لیکن اس مہم میں نہ جانے کتنے لوگ اپنی جان سے ہاتھ بھی دھو بیٹھتے ہیں۔۔۔
شور دریا سے یہ کہہ رہا ہے سمندر کا سکوت
جس میں جتنا ظرف ہے اتنا ہی وہ خاموش ہے
لیکن کہتے ہیں نا کہ جب کوئی چیز حد سے بڑھ جائے تو وہ نقصان ہی دیتی ہے۔۔ خاموشی کے جہاں اتنے فوائد اور اہمیت ہے وہیں اگر یہ حد سے بڑھنے لگ جائے تو اس سے لگنے والی کاٹ بڑی گہری ہوتی ہے۔۔۔
خاموشی اگر رشتوں میں در آئے تو سرد مہری بن جاتی ہے۔
لوگوں میں حائل ہو جائے تو غلط فہمیاں پیدا کر دیتی ہے۔
ضرورت کے وقت بھی ترک نہ کی جائے تو کمزوری اور کم علمی بن جاتی ہے۔
حق بات کہنے کے لیے بھی نہ ٹُوٹے تو ایمان کے سب سے نچلے درجے پر گِرا دیتی ہے۔
خاموشی اس وسیع و عریض کائنات کا ایک خوبصورت گوہر ہے۔۔ایک ایسا گوہر جس کو اگر نگل لیا جائے تو اپنی جان سے ہاتھ دھونا پڑتے ہیں لیکن اگر درست استعمال کیا جائے تو آپ کا ظاہر اور باطن دونوں اس کے حُسن سے آراستہ ہو جاتے ہیں۔۔
*****
دوسری بار پڑھ رہی ہوں بہت اچھا لگ رھا ھے۔۔۔۔بہت خوب ۔۔۔آگے بھی اسی طرح لکھتی رھئیگا
ReplyDeleteبہت عمدہ تحریر۔ ۔ ۔
ReplyDeleteلیکن حکیم لقمان کی نصیحتوں میں سے ایک یہ بھی تھی کہ تب تک مت بولو جب تک بولنے پر مجبور نہ ہو جاؤ۔ ونک
بہت خوب!
ReplyDeletekhamoshi ko bohat achy andaaz se or khobsurat lafzon ka sahara lay kr smjhaya gaya hai..,
ReplyDeleteدیوانوں میں دیوانے تهے فرزانوں میں فرزانے
ReplyDeleteایک ذرا سی خاموشی سے دونوں کام لئے ہم نے
-سعید راہی
keh raha hy shor e darya sy saamandar ka sakooot sher tk kar lejeye
ReplyDelete