Pages

Subscribe:

Friday, March 30, 2012

منزلوں سے آگے

منزلوں سے آگے
 

 


منزلیں کیا ہیں؟
  فقط ایک اختتام
جہاں مسافتیں دم توڑتیں
  راہیں بھی راہ چھوڑتیں
  جہاں من میں کوئی لگن نہیں
  خواہشون کی میٹھی اگن نہیں
  جہاں سکوتِ مرگ ہے چھایا ہوا
  اور دل بھی ہے گھبرایا ہوا 
   شوقِ سفر ہے کہ جاتا نہیں
کوئی سرا کبھی ہاتھ آتا نہیں۔۔۔ 
 

انسان اپنی ساری زندگی لگا دیتا ہے اپنی تعین کی ہوئی منزل کو پانے میں۔ کیا کیا نہیں کرتا وہ؟ اپنا رات دن کا آرام خود پر حرام کر لیتا ہے۔ کبھی کبھی حصول کے جنون میں تو وہ صحیح غلط، حلال حرام کی حدوں کو بھی پھلانگ جاتا ہے۔ اس کی نظر راہ کے چناؤ پر ہوتی ہی کب ہے؟ وہ تو کسی منجھے ہوئے کھلاڑی کی طرح دُور کی دیکھتا اور سوچتا ہے اور اپنی بہت نزدیک کی غلطیاں کبھی اُس کی چشم بینا سے نہیں گُزرتی۔

رشتے ناطے نبھانا تو ایک طرف وہ اُس واحد ذات کو بھی فراموش کر بیٹھتا ہے جس نے اُسے ہی نہیں کُل کائنات کو تخلیق کیا ہے۔ انسان اُس کی نعمت سے فیض یاب تو ہوتا رہتا ہے۔ ۔ رنگوں کو دیکھے تو خوشی محسوس کرتا ہے۔ ۔ شدید گرمی میں گِھر آنے والے بادلوں پر ایک ٹھنڈی پُر سکون آہ بھرتا ہے۔ ۔ سانس لیتا اور ہر طور ان نعمتوں سے بھرپور استفادہ تو حاصل کرتا ہے لیکن اپنی غفلت میں وہ ان سب کا شکر ادا کرنا تو دور ان سب کی اہمیت کو سراہنا اور یہ احساس تک کہ وہ کیسی کیسی نعمتوں سے فیض یاب ہو رہا ہے۔ ۔ تک بھول بیٹھتا ہے۔ ۔ اور بھولتا ہی چلا جاتا ہے۔ ۔


اور پھر۔ ۔ ایک وقت آتا ہے۔ ۔ جب اُس کی یہ تمام تر کاوشیں اور بے نیازی رنگ لاتی ہے اور وہ اپنی منزل کو پا بھی لیتا ہے۔ ۔ وہی منزل جس کے لیے وہ ساری زندگی دوڑ دھوپ اور ان تھک کاوشیں کرتا رہا۔ ۔ جاگتے سوتے وہ اُسی کے خواب دیکھتارہا۔ ۔ اور پھر وہی خواب ایک مجسم حقیقت بن کر اُس کے سامنے آ جاتے ہیں۔ ۔ لاحاصل حاصل ہو جاتا ہے۔ ۔ اور وہ اپنی جیت اپنی فتح کے نشے میں سرشار رہنے لگتا ہے۔

لیکن وہ بھول جاتا ہے کہ نشہ تو نشہ ہوتا ہے۔ ۔ اور اُسے اُترنا ہی ہوتا ہے۔ ۔ کچھ عرصے بعد وہ اُسی چیز سے جس کے لیے وہ ساری زندگی تگ و دو کرتا رہا۔ ۔ سے بے نیاز ہونے لگتا ہے۔ ۔ اور پھر غافل۔ ۔ زندگی یک دم بیزار سی نظر آنے لگ جاتی ہے۔ ۔ وہی انسان اُس یکسانیت سے گھبرا کر سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ وہ تو ساری زندگی ایک جدوجہدِ مسلسل کا عادی رہا۔ لڑنا۔ ۔ زندگی کی دوڑ میں دوڑنا۔ ۔ کامیابی اور ناکامی کے بیچ ڈولنا۔ ۔ اور اس اذیت سے لطف اندوز ہونا۔ ۔ یہ سب تو اب اُس کی ذات کا حصہ بن چُکا ہے۔ ۔ تو یہ کیسا مقام ہے جہاں اس زندگی میں کوئی زندگی ہی نہیں۔ ۔ جہاں راہیں بے جان اور دل خواہشوں کی لذت افزا تکلیف سے نا آشنا ہے۔ ۔ جہاں اس کی ذات ادھوری سی ہے۔ ۔

تب۔ ۔ کچھ تو اپنی اگلی منزل کا تعین کر کے پھر سے دیوانہ وار اُس کے حصول میں جُت جاتے ہیں لیکن تبھی۔ ۔ کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو اس گورکھ دھندے کو سمجھ جاتے ہیں۔ ۔ وہ جان لیتے ہیں کہ یہ منزلیں تو کچھ بھی نہیں سوائے ٹھہراؤ۔ ۔ سکوت اور موت کے۔ ۔ ۔ اور کیا اسی مضطرب سکوت کے لیے تمام عمر وہ ان نعمتوں سے منہ موڑت رہے۔ ۔ خوشی کے پل گنواتے رہے اور خُدا کا شکر ادا کرنے سے غافل رہے؟ تب اُن پر یہ انکشاف ہوتا ہے کہ اصل چیز تو سفر ہے۔ ۔ دیوانگیٴ سفر۔ ۔ اور یہ منزلیں۔ ۔ فقط ایک سراب ہیں۔ ۔ ایک خوبصورت دھوکہ۔ ۔ جو حاصل ہو کر بھی لا حاصل رہتا ہے۔ ۔ لاحاصل۔
اس زنگی کا حاصل اگر کچھ ہے تو وہ ہے صرف خدائے واحد کی ذات اور اُس کی خوشنودی۔ ۔ اور زندگی کے اس سفر کی منزل کچھ ہے تو۔ ۔ وہ ہے۔ ۔ موت۔ ۔!!!
۔
۔
۔
تو کیا اپنی ان دنیاوی منزلوں کے حصول کے لیے ہمیں یوں اپنی حقیقت سے منہ موڑنا چاہیے؟
*****

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔


2 comments:

  1. بہت اچھا لکھا ہے۔۔۔۔۔بےشک ہر انسان کی منزل خدائے واحد کی ذات اور اُس کی خوشنودی میں ہے

    ReplyDelete
  2. اور سب سے اچھی بات ہر افسانے کے پیچھے کوئی مقصد اور کوئی سبق ضرور ہے

    ReplyDelete