Pages

Subscribe:

Friday, March 30, 2012

انتظار




انتظار



دیکھ جتنا تو مجھے انتظار کرواتی ہے نا۔ کبھی میں بھی کرواؤں گا۔ پھر تجھے پتہ چلے کہ جس کی دید کو آپ کی آنکھیں ہر وقت پیاسی ہوں اُسی کا گھنٹوں انتظار کرنا کیسا لگتا ہے۔"
"اچھا۔ ۔ ۔تُو؟ تو مجھے انتظار کروائے گا؟ یہ تو ہو ہی نہیں سکتا۔" اُس کو جیسے یقین تھا کہ وہ اُس کو کبھی انتظار کروا ہی نہیں سکتا۔
"کیوں میں کیوں نہیں کروا سکتا انتظار؟" اُس نے ناراضگی سے پوچھا۔
"وہ اس لیے کہ تُو تو خود مجھے دیکھے بنا دو پل نہیں گُزار سکتا۔ انتظار کیسے کرائے گا" وہ اترائی۔
"میری اس کمزوری کا فائدہ اُٹھاتی ہے تو ہمیشہ ہی۔" وہ خفا ہوا۔
"میں کہاں فائدہ اُٹھاتی ہوں۔ دیکھ نا گھر پر کتنا سارا کام ہوتا ہے۔ بے بے کے ساتھ رسوئی کا کام۔ بابے کے ساتھ مل کر جانوروں کو پٹھے اور چارا ڈالنا۔ گھر کی صفائی کرنا اور پھر تیرے لیے کھانا بنا کر اتنی شِکر دوپہر یہاں کھیتوں میں آنا۔ یہ سب کیا میں جان کر تُجھے انتظار کروانے کو کرتی ہوں؟" اُس کے پاس بھی سو بہانے تھے۔
"میں کچھ نہیں جانتا۔ کل سے اگر تُو پورے بارہ بجے یہاں نہ ہوئی تو یاد رکھ اُس دن میں ساری دیہاڑی میں تُجھے کہیں نہیں دکھوں گا۔" وہ بضد تھا۔
"ہائے تُو تو سنجیدہ ہی ہو گیا۔ اچھا چل اب روٹی کھا لے۔"
"نہیں کھانی مجھے روٹی۔ جا تُو جا کے کام کر۔ وہ زیادہ ضروری ہیں۔"
"اچھا چل نا۔ مان جا اب۔ آج میں شام تک یہیں کھیتوں میں تیرے ساتھ کام کرواؤں گی۔ میں سامنے نازی کو کہہ آئی تھی کہ گھنٹے دو گھنٹے بعد گھر چکر لگا کر اماں ابا کو دیکھ جانا۔" اُس نے گویا انکشاف کیا۔
"سچ؟" حامد نے تصدیق چاہی جیسے یقین نہ آیا ہو۔
"ہاں۔" وہ مُسکرا کر دھیمے سے بولی۔
"چل ٹھیک ہے پھر کھا لیتے ہیں روٹی۔ لیکن میں تھکا ہوا ہوں۔"
"تو؟"
"تو یہ کہ اب تیری سزا ہے کہ تُو ہی مجھے کِھلائے گی۔" وہ جُھوٹی ناراضگی سے منہ بنا کر بولا اور درخت کے ساتھ ٹیک لگا لی۔
"ہاہاہا ۔ ۔ ۔تُو بھی نا۔" سلمیٰ نے مُسکراتے ہوئے سر ہلایا اور پوٹری کی گانٹھ کھولنے لگی۔
جون کی گرم دوپہر کو برگد کے درخت کے نیچے بیٹھے ایک دوسرے کو کھانا کھلاتے اور ہنستے مُسکراتے باتیں کرتے حامد اور سلمیٰ اس بات سے قطعی بے خبر تھے کہ سامنے والے درخت کی نازک سی شاخ پر چڑا اور چڑی کے ایک چھوٹے سے گھونسلے میں سے چڑا سیاہ عُقاب کا شکار بن چُکا تھا۔
 

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

حامد ایک پسماندہ سے دیہات میں مقیم شُکر دین اور بشیراں کی اکلوتی اولاد تھا۔ ان کا تعلق ایسے گھرانے سے تھا جہاں فصل اچھی ہونے کی صُورت میں سال بھر کے لیے ذخیرہ کر لیا جاتا تھا۔ اور باقی ماندہ فصل کو بیچ کر جو پیسے ملتے تھے اُس سے اچھی گُزر بسر ہو جاتی تھی۔ زندگی میں اگر کچھ تھا تو اپنے خُدا کے لیے احساسِ تشکر، سکون اور محبت۔ اگر کسی چیز کی کمی تھی تو کسی ایک انسان کی جو اس خاندان کو مکمل کر سکے۔ وہ کمی بھی تب دُور ہو گئی جب حامد کی ماں بشیراں اپنی بھانجی کو اپنی بہو بنا کر اپنے گھر لے آئی۔ زندگی بہت ہموار تھی۔ ۔ ۔کسی بھی دُکھ کے گُزر کے لیے کوئی راستہ نہ تھا۔


٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

 

"بھاگو بھاگو۔ ۔ ۔جلدی کرو۔ دریا میں آنے والے سیلاب نے دریا کا راستہ بدل بدل دیا ہے۔ ساری ہری بھری لہلہاتی فصلیں برباد ہو جائیں گی۔ جتنی مٹی ہو سکتی ہے اکٹھی کر کے یہاں پہاڑیاں بنا دو۔ شاید کچھ بچت ہو جائے۔"
گاؤں کے سب مرد، عورتیں اور بچے راستہ بدلتے دریا کو روکنے کی کوشش میں لگے رہے۔
"یہ کیا ہو گیا بے بے۔ ساری فصلیں برباد ہو گئیں۔ جو پہلے سیراب کرتا تھا آج سب برباد کر گیا۔ ایسا بھی ہوتا ہے کیا بے بے۔ ایک ہی چیز ایک وقت میں اتنا نوازے اور اگلے ہی پل میں سب اُجاڑ دے۔" اُس نے بھیگے لہجے سے پوچھا۔
"کیوں نہیں میرے بچے۔ یہی تو اس زندگی کا دستور ہے۔ اگر چھاؤں ہے تو دھوپ بھی ہے۔ جو رب نوازتا ہے وہ ہی واپس بھی لے لیتا ہے۔ یہی اس زندگی کی حقیقت ہے۔ تُو غم نہ کر۔ مشکل وقت ہے کٹ جائے گا۔ صبر کر اور رب سے دُعا کر۔ کہ وہ صبر کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے۔" بے بے اُن کے گھٹنوں پہ سر رکھ کے بیٹھی سلمیٰ کے بالوں میں پیار سے ہاتھ پھیرتے ہوئے اُسے سمجھا رہیں تھیں۔

زندگی میں آنے والی چھوٹی تکلیفیں شاید آپ کو کوئی بڑی تکلیف سہنے کےلیے تیار کرتی ہیں۔





٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭



"حامد تُو شہر جانے کا ارادہ چھوڑ نہیں سکتا؟ میرا دل نہیں مان رہا۔ میں کیسے رہوں گی اتنا عرصہ تجھ سے دُور؟"
"دیکھ سلمٰی ساری زمین برباد ہو گئی ہے۔ اتنا پانی ہے کہ نکلتا نہیں۔ جب تک زمین دوبارہ کاشت کے قابل نہیں ہو جاتی تب تک بیٹھ کے انتظار کرتا رہا تو یہ گھر کیسے چلے گا؟"
"کیسے بھی کر لیں گے۔ دونوں مل کے کچھ کر لیں گے نا۔ لیکن تُو رُک جا۔"
"چل بتا کیا کر لیں گے دونوں مل کے؟"
"وہ میں نہیں جانتی۔ لیکن بس تُو نہ جا۔"
"ہاہا۔ ۔ پگلی۔ چل سو جا اب۔ اور مجھے بھی آرام کرنے دے۔ صُبح روشنی ہونے سے پہلے نکلنا ہے مجھے۔"
"منہ اندھیرے جانا ضروری ہے؟"
"کیوں؟"
"بس مجھے ڈر لگتا ہے۔"
"ڈرنا کیسا۔ سارے راستے دیکھے بھالے ہیں۔ اپنے ہی لوگ ہیں سب۔ اندھیرے بھی اپنے ہی ہیں۔" اُس نے شرارت سے کہا "چل اب زیادہ نہ سوچ اور مجھے بھی سونے دے۔"
وہ خود تو سو گیا لیکن نیند سلمٰی کی آنکھوں صُبح تک اُس نیند کی منتظر ہی رہیں جسے آنا ہی نہیں تھا۔




٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭


"بیٹی۔ شام ڈھل رہی ہے۔ کچھ دیر میں اندھیرا پھیلنا شروع ہو جائے گا۔ چل میری دھی اب گھر چل۔" روز کی طرح آج بھی اُس کا بابا اُسے لینے آبادی سے کچھ ہٹ کر دُور کھیتوں کی طرف اُس برگد کے درخت کے نیچے آیا تھا جہاں سے وہ گاؤں سے باہر جاتے اور واپس اندر آتے راستوں کو دیکھتی رہتی تھی۔
"بابا شہر سے آنے والی بسیں ابھی نہیں آئیں؟" اُس نے پوچھا۔
"نہیں میری رانی۔ وہ صُبح آئیں گی۔" اُنھوں نے اُس کے سر پر ہاتھ رکھتے ہوئے نم آنکھوں سے پچھلے تین سالوں سے بولا جانے والا جُملہ دہرا دیا۔
"اچھا۔ صُبح آئیں گی۔ چل پھر اب گھر چلیں۔ میں حامد کے لیے اُس کی پسند کے کھانے بنا لوں۔ صُبح پھر جب وہ آئے گا تو اُس کی پسند کے سب کھانے کھلاؤں گی اور یہ بھی بتاؤں گی کہ اُس کے انتظار میں میں نے برگد کے اُس درخت کو کبھی ویران نہیں ہونے دیا جسے اُس نے میرے انتظار میں آباد کیا تھا۔
"تُو آ جا حامد۔ اب کے تُجھے کبھی انتظار نہیں کرواؤں گی۔ وعدہ۔" اُس نے ہاتھ میں پکڑے دو سال پُرانے اخبار کر کھول کے اُس کی تصویر سے وعدہ کیا۔ جس کے اُوپر لکھا تھا "تلاشِ گُمشدہ۔"

اُس کے بابا اُس کو تھام کے واپس لے جا رہے تھے اور اُن کے چار سُو اندھیرا گہرا ہوتا جا رہا تھا۔


٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
 
 
 

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔


2 comments:

  1. اف۔۔۔۔۔بہت ہی دل دکھا دینے والی کہانی ھے۔۔۔میرے بدن مے سنسنی دوڑ گئ یہ پڑھ کہ ۔۔۔کہ جب آپ کسی کا انتظار کرو اتنی شدت سے اور وہ لوٹ کر ھی نہ آے۔۔۔خدا نہ کرے

    ReplyDelete